اسلام آباد: نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ حکومت نے پاناما لیکس سکینڈل کے منظرِعام پر آنے کے بعد وزیراعظم کو کرپشن کے الزامات پر اقتدار سے ہٹانے کے اپوزیشن کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کچھ سیاست دانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایسے منصوبوں کے لیے بھی کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کردیے ہیں جنہیں شروع کرنے کی اجازت تک نہیں دی گئی۔

رواں برس کے اوائل میں پاناما کی ایک لافرم موزاک فونزیکا نے تقریباًایک کروڑ 10لاکھ دستاویزات جاری کیں جن میں سینکڑوں عالمی رہنمائوں اور معروف شخصیات کی آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان لیکس کے مطابق وزیراعظم نوازشریف، ان کے صاحب زادوں حسین نواز ، حسن نواز اور صاحب زادی مریم نواز کی برٹش ورجن آئی لینڈز میں مبینہ طور پر چار آف شور کمپنیاں ہیں۔

اپوزیشن کے رہنماء وزیراعظم کو ان ہائوس تبدیلی یا پھر تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے کے لیے کسی متفقہ لائحہ عمل تک پہنچنے کے لیے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف اس سکینڈل کے منظرِعام پر آنے کے بعد پہلی بار رواں برس مئی میں قومی اسمبلی میں آئے اور اس حوالے سے تفتیش کرنے کے لیے ضابطۂ اخلاق تشکیل دینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ۔ تاہم قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔

نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ متعلقہ محکمے نے کچھ سیاست دانوں جیسا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو مشکلات کا شکار وزیراعظم کی حمایت کے عوض خصوصی منصوبے شروع کرنے کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کیے۔

ان دستاویزات کے مطابق زیادہ ترفنڈز سوات، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں غیر مصدقہ منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو کچھ اہم سیاست دانوں جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماء امیر مقام، وزیرِ ہائوسنگ اکرم خان درانی اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے آبائی حلقے ہیں۔
سوات یونیورسٹی کے مینگورہ میں وومن سب کیمپس کی تعمیر کے لیے مختص کیے گئے 50کروڑ روپے کے مجموعی بجٹ میں سے پانچ کروڑ روپے جاری کیے جائیں گے جس کے لیے اس منصوبے کے پی سی ون کا منظور ہونا ضروری ہے۔

ان دستاویزات سے مزید انکشاف ہوتا ہے:’’اگر پی سی ون منظور ہوجاتاہے تو ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی کے لیے سال برائے 2016-17ء کے لیے مختص کیے گئے 50کروڑ روپے کے بجٹ میں سے پانچ کروڑ روپے جاری کیے جائیں گے ۔‘‘

بنوں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لکی مروت کیمپس کو یونیورسٹی کے طور پر اَپ گریڈکرنے کے لیے مختص کیے گئے 50کروڑ روپے کے فنڈز میں سے 10کروڑ روپے رواں برس جاری کیے جائیں گے۔

ہزارہ یونیورسٹی کے حویلیاں کیمپس کو یونیورسٹی کے طور پر اَپ گریڈ کرنے کے لیے سال برائے 2016-17ء کے لیے مختص کیے گئے81کروڑ 90لاکھ روپے کے بجٹ میں سے 10کروڑ روپے جاری کیے جائیں گے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور بالخصوص پاکستان تحریکِ انصاف نے پاناما لیکس میں وزیراعظم کانام آنے پر ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کوششوں کو تیز کردیاہے۔

پاکستان مسلم لیگ نوازسے تعلق رکھنے والے قانون ساز نہال ہاشمی کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے اقتدار سے رخصت ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا:’’ وزیراعظم نواز شریف عالمی پایے کے رہنماء ہیں اور ان جیسے رہنماء صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔‘‘

قبل ازیں مولانا فضل الرحمان وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ خیبرپختونخوا کے دورے پربھی گئے تھے جہاں وزیراعظم نے اپنی سیاسی قوت ظاہر کرنے کے لیے بڑے عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنے اس دورے کے دوران کچھ بڑے منصوبوں جیسا کہ بنوں انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی توسیع، لکی مروت میں یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے، ڈیرہ اسماعیل خان کے ایئرپورٹ کو عالمی ہوائی اڈہ بنانے اور کسانوں کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا۔

ان دستاویزات کے مطابق 20کروڑ روپے کے فنڈز ڈیرہ اسماعیل خان کے غیرمنظور ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جنہیں منصوبہ بندی کمیشن، جو صوبائی منصوبے شروع کرنے کی اجازت دینے کا ذمہ دار ہے، کی سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ کمیٹی اور نہ ہی قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے منظور کیاہے۔

نہال ہاشمی نے کہا کہ پرامن احتجاج حزبِ اختلاف کا جمہوری حق ہے لیکن انہوں نے خبر دار کیا کہ کسی کو بھی پارلیمان یا پھر قومی تنصیبات پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

نہال ہاشمی نے مزید کہا:’’ ہم چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں ضابطۂ اخلاق پر متفق ہوں لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کا نقطۂ نظر مسلم لیگ نواز کے خلاف ذاتی دشمنی کا غمازہے۔‘‘

پاکستان تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما عارف علوی نے کہاکہ ان کوحکومت کی جانب سے اپنے حلیفوں کو اس نوعیت کی ’’سیاسی ترغیبات‘‘ دیے جانے کے متعلق جان کر دھچکا لگا ہے۔

انہوں نے الزام عاید کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے دبائو کے پیشِ نظر مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایسے منصوبوں کے لیے فنڈز مختص کیے ہیں۔

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ پاناما لیکس سکینڈل نے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے جہاں کرپشن کا عفریت بے قابو ہوچکا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار منصور اکبر کنڈی کہتے ہیں: ’’یہ درحقیقت سیاسی بندھن ہے۔‘‘

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس ( آئی سی آئی جے) کو پاناما کی قانونی فرم سے لاکھوں دستاویزات موصول ہوئیں جن سے ہزاروں قانون سازوں، سیاست دانوں اور دیگر کے جعل سازی میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا جن میں 220پاکستانی بھی شامل ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے مجلے ’’پاکستان اکنامک اینڈ سوشل ریویو‘‘ میں شایع ہونے والے تحقیقی مضمون میں کہاگیا ہے کہ اچھی طرزِ حکمرانی کرپشن سے پاک معاشروں میں ہی فروغ پاتی ہے، ’’پاکستان اس حوالے سے تنزلی کا شکار ہوا ہے۔‘‘

قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ قمر زمان چودھری نے ایک بیان میں کہا:’’کرپشن ایک زہر ہے جس کا اثر زائل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ نیب پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کا اہم ترین ادارہ ہے۔

قمرزمان چودھری نے کہا کہ نیب 1999ء میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک 276ارب روپے واپس حاصل کرچکا ہے جنہیں قومی خزانے میں جمع کروا دیا گیا ہے۔  

قومی اسمبلی کے رُکن اور مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطاء الرحمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم وزیراعظم نوازشریف کی حمایت ان کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد سے کررہے ہیں جس کا پانامہ لیکس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حمایت کے عوض فنڈز حاصل کرنے کے الزامات بے بنیاد اور غلط ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماء قمرالزمان کائرہ کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف وزیراعظم سے صرف کمیشن تشکیل دینے اوراس معاملے کی تفتیش کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔انہوںنے مزید کہا:’’ پاکستان پیپلز پارٹی متحدہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر حکومت پر زیادہ سے زیادہ دبائو بڑھانے کے لیے حکمتِ عملی تشکیل دے گی تاکہ وہ سنجیدگی سے اس معاملے کی تفتیش کرے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here