لاہور (دردانہ نجم) فاخرہ سرفراز (حقیقی نام نہیں ہے) یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب کبھی بحث ہوتی تو ان کے خاوند اُن پرتشدد کیا کرتے۔ فخرہ کے لیے زیادہ پریشان کن صورتِ حال یہ ہے کہ ان کی بیٹی بھی ان کی طرح کے مسائل کا سامنا کررہی ہے کیوں کہ اس کی شادی اپنے والد کے کزن سے ہوئی ہے۔
حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ تجویز دی ہے کہ شوہروں کو نافرمان بیویوں پر ہلکا تشدد کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔
نیوز لینز پاکستان نے جب اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز کے بارے میں استفسار کیا کہ شوہر بیوی پر ہلکا تشدد کرسکتا ہے تو فخرہ نے کہا کہ جب کوئی شخص تشدد پر اُتر آئے تو اس سے اپنی بیوی پر ہلکا تشدد کرنے کی امید رکھنا ایک مذاق ہی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ہمارے خاندان میں مردوں نے اپنی بیویوں پر تشدد کی عادت اپنا لی ہے۔ میری طرح میری بیٹی بھی یہ سب کچھ صبر سے برداشت کررہی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی شادی کو بچانے کے لیے ہر حد تک جائیں۔ فاخرہ سرفراز نے کہا:’’ میں نے کبھی اپنے خاوند کے تشدد کے بارے میں اپنی ماں کو نہیں بتایا تھا، میری بیٹی بھی ایسا ہی کررہی ہے۔ تاہم جب ایک مرد اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے تو وہ نہ صرف عدم تحفظ کا شکار ہوجاتی ہے بلکہ اپنے خاوند کا احترام کرنا بھی چھوڑ دیتی ہے۔ یہ ایک دردناک احساس ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف پنجاب کے شعبۂ اپلائیڈ سائیکالوجی سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر نعمانہ امجد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب کوئی خاوند اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے تو عورت کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ کیا کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ اس نوعیت کے مباحثوں کے خواتین کے اذہان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جب وہ یہ دیکھتی ہیں کہ معاشرے میں ان کے شوہروں کو ان پر تشدد کرنے کے طریقوں کے حوالے سے بات ہورہی ہے؟ ہمیںاپنی لڑکیوں کی بہتر ذہنی صحت کے لیے ایسے مباحثوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے دفتر میں 25مئی کو ہونے والی پریس کانفرنس میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلام میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کا مثالی بل پیش کیا۔ مجوزہ قانون کا اہم ترین حصہ مردوں کے عورتوں پر ہاتھ اٹھانے سے متعلق ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے استعمال کی جانے والی ’’ہلکے تشدد‘‘کی اصطلاح کی نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں نے بھی مذمت کی۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسرفرخ عباس اسے ایک رجعت پذیر اقدام قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل عورتوں سے نفرت کا باعث بننے والے رویوں کو چیلنج کرنے کی بجائے ایک ایسا ماحول تشکیل دے رہی ہے جہاں مرد عورتوں کی تحقیر کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میرے لیے عورت پر تشدد کرنے کے لیے ہاتھ بلند کرنا ایک قابلِ شرم اقدام ہے۔ اس نوعیت کے بیانات دے کر اسلامی نظریاتی کونسل سے منسلک علما عورت مخالف سرگرمیوں کو مذہب کا لبادہ اوڑھا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان تحریکِ انصاف کی کارکن اور ایک غیر سرکاری تنظیم جسٹس پاکستان سے منسلک رضاکار ملائیکہ رضا کہتی ہیں کہ یہ کسی بھی عورت کے لیے دردناک ہے کہ اس کا خاوند اس کے ساتھ باندیوں کا سا سلوک کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایک غیر مطمئن، عدم تحفظ کا شکار اورفاترالعقل مرد، جسے سماج کی جانب سے رَد کیا گیا ہو، ہی اپنی بیوی پر تشدد کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے خواتین کے خلاف متعدد فیصلے کیے ہیں جس کے باعث یہ متنازعہ ہوچکی ہے چناں چہ اسے تحلیل کردینا چاہیے۔
ملائیکہ رضا نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی جانب سے پیش کیے گئے بلوں کے ردِعمل میں یہ بل تجویز کیا گیا ہے۔
بل میں مخلوط تعلیم، مخلوط محفلوں اور ناچ گانے کو فروغ دینے والی تمام سرگرمیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ نرسنگ کے پیشے کو بھی خواتین کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
المورد سے منسلک مذہبی عالم ڈاکٹر ظہیر احمد نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرآنِ حکیم مخلوط محفلوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مسلمان خواتین پر مردوں سے ملاقات کرنے پر کوئی پابندی عاید نہیں ہے۔ انہوں نے سورۃ نور کی آیت نمبر 31کا حوالہ دیا:
ترجمہ: ’’اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔‘‘
ڈاکٹر ظہیر احمد نے کہا سوال یہ ہے کہ اگر عورتوں کو مردوں سے ملاقات کرنے یا ان کے ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے تو پھر یہ آیت کن حالات کا احاطہ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ اگر عورتوں کو مخلوط محفلوں میں شرکت کی اجازت نہیں تو وہ کب اپنی نظریں نیچی کریں اور عصمت کی حفاظت کریں۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل نے پنجاب اسمبلی کی جانب سے پاس کیے جانے والے حقوقِ نسواں کے بل کورَد کیا تھا کیوں کہ اس کے خیال میں اس کے مطمعٔ نظر سماج میں شوہروں کا مقام گھٹانا ہے۔ جہاں تک خیبرپختونخوا حکومت کے حقوقِ نسواں بل کا تعلق ہے تو وہ تجاویز کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کیاگیا تھا جسے کونسل نے غیر اسلامی کہتے ہوئے رَد کر دیا۔
نیوزلینز پاکستان نے جب وفاقی شرعی عدالت کے مشیر مفتی عبدالقوی سے اس معاملے پر ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے اسلامی نظریاتی کونسل اپنے 60میں سے 40ارکان کے ساتھ کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی شاذ و نادر ہی کونسل کے ارکان کے ساتھ مشاورت کرتے ہیں اور ان کے بیانات اکثر و بیش تر ان کی ذاتی رائے تصور کیے جاتے ہیں۔
مفتی عبدالقوی نے نبی کریم حضرت محمدؐ اورا ن کے صحابہؓ کے طرزِ عمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی جب نبی کریمؐ نے تشدد تو کجا اپنی اذدواج مطہرات سے بلند آواز میں بات بھی کی ہو۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا محمد خان شیرانی پاکستان میں افغانی طرز کا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے نرسنگ کے پیشے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے نبی کریمؐ کے عہد میں ہونے والے غزوات کا حوالہ دیا جن میں خواتین نہ صرف فعال انداز سے شریک ہوتیں بلکہ زخمی ہونے والے سپاہیوں کو ابتدائی طبی امداد بھی فراہم کیاکرتیں۔
مفتی عبدالقوی نے مولانا محمد خان شیرانی سے یہ بھی استفسار کیا کہ اگر وہ تصور کرتے ہیں کہ خواتین کو مردوں سے ملاقات یا ان کے شانہ بشانہ کام نہیں کرنا چاہئے تو ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کی خواتین ارکانِ پارلیمان اسمبلیوں میں کیا کررہی ہیں؟
نیوز لینز پاکستان نے اسلام میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے اہلِ تشیع فرقے کی تعلیمات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے عالمہ سیدہ گلِ زہرہ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی تمام تر تعلیمات برتائو سے متعلق ہیں… ہم اپنے خالق ، اس کے پیغمبروں اور اہل بیتؑ سے کیسے پیش آتے ہیں۔ سماج ہم سے کیسا برتائو کرتا ہے اور ہم سماج سے کیسا برتائو کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ اسلامی نظریاتی کونسل یہ دعویٰ کرتی ہے اس کے فیصلے قرآن اور شریعت کے مطابق ہیں لیکن درحقیقت ایسانہیں ہے۔ اسلام میں قرآ ن کریم کی تعلیمات اور نہ ہی نبی کریمؐ کی سنت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنی خوشی کے لیے کسی دوسرے پر ’’تشدد‘‘ کرسکتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اسلامی تعلیمات کے حوالے سے صرف زبانی طور پر کام کررہی ہے۔ سیدہ گُل زہرہ کاکہناتھا:’’ میں یہ تجویز کرتی ہوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو نئے قوانین تشکیل دینے کی بجائے زبردستی کی شادیوں، تیزاب پھینکے اور ہراساں کرنے کی دیگر شکلوں، جن کاہمارے سماج کی خواتین کو سامنا ہے، کے خلاف ذہن سازی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘