یہ توانائی کا معاملہ ہے! نادان

0
1145

ہم سب کی نگاہیں اسد عمر کی جادوگری پر جمی ہوئی ہیں کہ وہ کس طرح وزیر اعظم عمران کی طرف سے عرصہ دراز سے کئے جانے والے دعوئوں میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہیںمگر یہاں ہم ایک بات بھول رہے ہیں‘ یقینا معاشی مسائل کی حد تک معاملات حوصلہ شکن ہیں۔

قومی اداروں جن میں پی آئی اے پاکستان سٹیل ملز اور دیگر کا سالانہ قومی خسارہ ایک ٹریلین روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کا تجارتی خسارہ 40ارب ڈالر اور مجموعی خسارہ 18ارب ڈالر کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ حکومت کے لیے مستقبل قریب میں 100ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کرنے کے چیلنجز کا سامنا کیا کم تھا کہ ایک کروڑ نئی نوکریوں اور 50لاکھ نئے گھروں کے وعدہ کا بوجھ بھی اپنے سر باندھ لیا ہے۔ جس کے لیے وقت درکار ہو گا پہلے تو ہمیں سر پر پڑے ادائیگیوں کے بحران سے نمٹنا ہے جس کے بعد کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہے۔ قرضوں کی ادائیگی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔

اگر معاملات یونہی خوش اسلوبی سے طے ہو گئے تو حکومت کو ایک بار تو بیل آئوٹ ملنے کی توقع ہے کیونکہ اس وقت حکومت اپنی تمام تر توجہ اس مسئلہ کے حل پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ تاہم ہمارے پاس ایک ذریعہ ایسا بھی ہے جس پر بہت کم توجہ دی گئی ہے اگر حکومت تھوڑی سی توجہ اور اخلاص کا مظاہرہ کرے تو اس سیکٹر سے سالانہ 7اور 10ارب ڈالر بڑی آسانی سے بچائے جا سکتے ہیں۔

ایسا صرف اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے اگر حکومت انرجی سیکٹر کی بے تکی پالیسیوں پر نظرثانی کرتی ہے۔ اس شعبہ کی بدانتظامی اور بیورو کریسی کی بدعنوانیوں کے انسداد کے بعد عوام کو قیمتیں بڑھائے بغیر لوڈشیڈنگ اور گیس کی عدم دستیابی سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں بس کرنا یہ ہے کہ اس شعبہ سے گندگی کو صاف کرنا ہے۔ ایسے گروہوں اور مافیاز کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے جو سسٹم کا جونکوں کی طرح خون چوس رہے ہیں جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایسا شعبہ ہے جس میں کم وقت اورتھوڑی سی توجہ سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بس ہمیں آئل اینڈ گیس مافیا کے ساتھ دانائی اور حکمت سے نمٹنا ہو گا جو افسر شاہی اور سیاستدانوں کے ساتھ مل کر قومی دولت لوٹ رہا ہے۔

انرجی سیکٹر ایسی کان ہے جس سے ہم سالانہ کم و بیش 10ارب ڈالر سالانہ بچا سکتے ہیں اگر ہم صرف بجلی ہی مہنگے فرنس آئل کے بجائے آر ایل این جی سے بنا لیں تو سالانہ 2.5سے 3ارب ڈالر بچا سکتے ہیں اسی طرح ہم صرف ٹیرف کو منطقی بنا کر اور سبسڈی کا خاتمہ کر کے سالانہ 1.5سے 2ارب ڈالر کی بچت کر سکتے ہیں۔ سادہ سا نسخہ ہے ہمیں ٹیرف کی چوری روکنا ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے اضافی پرائس سلیب سے بچنے کے لیے گھروں میں کئی ایک میٹر لگوا رکھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح گھریلو اور صنعتی استعمال‘ چھوٹی اور بڑی صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمتیں مختلف ہیں۔ اس طرح کی بدانتظامی گیس سیکٹر میں بھی ہے جو سالانہ 50کروڑ ڈالر ہڑپ کر جاتا ہے۔ ہم صرف لائن لاسز اور تقسیم کار کمپنیوں کے معاملات درست کر کے کم از کم 2ارب ڈالر کی بچت کر سکتے ہیں۔ ڈسکوز کے حوالے سے جو بھی اصلاحات ضروری ہوں کر گزریں۔ یہ ادارے کرپشن آلودہ اور مافیاز کی طرح کام کر رہے ہیں۔ ان میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ اعداد و شمار میں نے نہیں گھڑے بلکہ سرکاری تجزیات اور ریسرچ رپورٹوں کا حصہ ہیں جن پر وزارت توانائی میں گرد جمی پڑی ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ وفاقی وزیر توانائی آگے بڑھنے سے پہلے ان فائلوں کی گرد جھاڑ کر ان کو ضرور پڑھیں گے۔

چہ جائے کہ ملک کے سب سے بڑے مافیا سے نمٹنا ان کے لیے کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ یوں کہیے کہ عمر ایوب کے سامنے کامیابی کی ٹرافی پڑی ہے مگر ان کو اپنی ذہانت سے اسے حاصل کرنا ہے۔ آیا فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے یہ اعزاز حاصل کر پاتے ہیں ؟اس کا فیصلہ وقت نے کرنا ہے۔ پہلے ہم آئل مافیا کی بات کرتے ہیں دیکھنا ہے کہ عمر ایوب پہلے کے گھپلوں اور انکوائریوں کا فالو اپ کس طرح کرتے ہیں جن میں دو قابل ذکر ہیں۔ اول نواز شریف کے دور میں من پسند کمپنیوں کو 480ارب کی ادائیگیوں کا سکینڈل ہے جبکہ دوسرا آئل کمپنیوں کو 120ارب کی بغیر کسی آڈٹ کے سابق صدر زرداری کے دور میں ادائیگی کا معاملہ ہے۔ اقبال زیڈ احمد کا سکینڈل بھلایا نہیں جا سکتا۔ ان سے بھی اہم معاملہ جو تاحال جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق سالانہ 500ملین ڈالر کھا رہا ہے اور زرمبادلہ پر مسلسل بوجھ بنا ہوا ہے‘ مہنگے داموں بجلی کی پیداوار ہے۔ یہ ایسا سکینڈل ہے جس کی مثال نہیں ملتی کہ کس طرح تاجروں اور سیاستدانوں کا ایک گروہ قومی خزانہ کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آئل مافیا نے بجلی کے پیداواری یونٹس کو مہنگے تیل کے بجائے سستی ایل این جی سے بنانے کی مخالفت کی تھی۔ اب جبکہ ہم ایل این جی درآمد کر رہے ہیں اس کے باوجود بھی آئل مافیا کی بھر پور کوشش ہے کہ ایل این جی کا بجلی کی پیداوار میں کم سے کم استعمال ہو۔ عوام کا پیسہ لوٹا جا رہا ہے۔ یہ بات کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ فرنس آئل کا بجلی گھروں میں استعمال ماحولیات کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے اور فرنس آئل سے ہم 13سے 14روپے میں ایک یونٹ بجلی بناتے ہیں جبکہ ایل این جی سے 7سے 9روپے میں بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ نئے یونٹ مزید سستی بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ مافیا اپنے خفیہ سہولت کاروں سے مل کر سازشوں میں مصروف ہے کہ کس طرح تیل کی درآمد کو زیادہ اور ایل این جی کو کم سے کم سطح پر رکھا جائے۔ یہ اس لحاظ سے بھی قوانین کی خلاف ورزی ہے کہ مینڈیٹ کے مطابق 6500میگاواٹ بجلی ایل این جی پر پیدا کی جانی چاہیے اس کے بعد فرنس آئل یا دیگر مہنگے ذرائع سے پیدا کی جا سکتی ہے۔

اس سال جنوری میں ایل این جی کے نئے ٹرمینل کو فعال کرنے کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے تھے۔ لیکن اسی مافیا کے بابوں میں سے کسی نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ یہ ڈیمانڈ کافی نہ ہو گی اور ماہانہ 3کارگو کا آرڈر منسوخ کرنے کا کہا گیا۔ حکومتی ادارہ جو ایل این جی کی مانیٹرنگ کر رہا ہے اس نے متعدد بار متنبہ کیا مگر اس بابے کو آئل مافیا کی پشت پناہی حاصل تھی جو کام دکھا گئی۔ پری کیورمنٹ کے لیے پیپرارولز کے مطابق 3سے 4ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے مگر آخری لمحوںمیں ٹرمینل چارجز کو ری شیڈول کرنے کا جواز بنایا گیا۔ اس کے بعد کرپٹ بابے نے اپنا موقف تبدیل کیا اور کہا کہ تخمینہ غلط تھا ملک کو مزید انرجی کی ضرورت ہے جس کے حصول کا واحد ذریعہ فرنس آئل ہے ۔’’تعجب ہے تعجب ہے‘‘ حکومت کو غریب عوام کی جیبوں سے 500ملین ڈالرزائد ادا کرنا پڑ رہے ہیں۔اس کھیل میں بہت سوں نے بے تحاشہ کمایا حکومت بھی صارفین سے 5سے 6روپے اضافی بوجھ ڈال کر افسر شاہی کی بدعنوانی کا خراج وصول کرلے گی۔

قوم کو جو رگڑا دیا گیا اس ڈیمانڈ کا تخمینہ گیس کمپنی ‘پاور ڈویژن اور سیکرٹری پٹرولیم نے لگایا تھا۔ پٹرولیم کے سیکرٹری راجہ سکندر سلطان کو مشکوک انداز میں ترقی سابق وزیر اعظم کے سابق سیکرٹری فواد حسن فواد نے دی تھی جن کو تمام بے ضابطگیوں کا کرشمہ ساز کہا جاتا ہے ۔اس لیے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایل این جی کی ڈیمانڈ میں ردوبدل میں کس سطح کے بااثر طبقات ملوث ہوں گے۔ ان میں ایک تو راجہ صاحب کے خسر عزیز سعید مہدی تھے جبکہ دوسرے سیکرٹری توانائی 15کامن کے بیج میٹ یوسف نسیم کھوکھر تھے ۔راجہ کی طرف سے اب کھوکھر پر الزام دھرا جا رہا ہے جو آج کل سیکرٹری داخلہ ہیں۔ اب اگر حکومت معاملہ کی انکوائری کا حکم دیتی ہے تو ایف آئی اے ان کا ماتحت ادارہ ہے۔ آپ نے دیکھا کس قدر چالاکی سے کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ایک بچہ سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح مل کر پاکستان کے لئے سستی توانائی کے حصول کے دروازے بند کئے گئے تاکہ آئل مافیا مارکیٹ کو مینج کر کے لوٹ مار کو ممکن بنا سکے۔ یہ اب پاکستان کی خوش بختی ہو گی کہ آئندہ ماضی جیسی ایل این جی کی قیمتیں میسر آ سکیں۔ ملک کو اس کی قیمت اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کی صورت میں چکانا پڑے گی۔

آج کل ہم روزانہ چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں پر بات یہاںرکنے والی نہیں۔ سردی میں گیس کی عدم دستیابی کا بھی سامنا ہو گا ،پی ٹی آئی کی حکومت کوتین ماہ بعد عوام کو صفائیاں دینا پڑیں گی۔ دسمبر تک حکومت کا ہنی مون پریڈ بھی ختم ہو چکا ہو گا۔ حکومت کو دسمبر میں مشکل کا سامنا ہو گا اس بحران کے عمران خاں ذمہ دار نہ ہوں گے۔ اس وقت حکومت کو علم ہو گا سیاست کس قدر ظالم چیز ہے۔ اس وقت آئل کمپنیاں بغیر کسی روک ٹوک کے فرنس آئل استعمال کر رہی ہیں اور مال بنا رہی ہیں۔ لوٹو اور پھوٹو کا کھیل جاری ہے۔ یہ تو ایک طویل کہانی کا محض آغاز ہے۔ مختصر یہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پٹرولیم اور توانائی کی الگ الگ وزارتیں بنا کر بے ایمانی کا جواز تو خود پیدا کر دیا ہے۔ تکنیکی طور پر سیکرٹری توانائی پٹرولیم ڈویژن پر بھاری ہیں جس کے اب غلام سرور وفاقی وزیر ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے پرانے بزرگ ہونے کی وجہ سے کیا نووارد عمر ایوب سے ہدایات لینا پسند کریں گے۔بھلے ہی تکنیکی طور پر نوجوان عمر کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ جلداختیار کی کشمکش کا آغازہو جائے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کو اناڑی پن کہا جائے یا نادانی ۔ مگر گندگی کہہ سکتے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم اس مسئلہ کو حل کرتے ہیں یا پھر ہمیں اس برس سردیوں میں ایک بار پھر بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا ہے تو ’’نیا پاکستان خوش آمدید‘‘ 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here