پشاور: ادارہ برائے بحالیٔ متاثرینِ زلزلہ(ایرا) کی جانب سے دستیاب ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اکتوبر2005ء میں آنے والے ہولناک زلزلے میں تباہ ہونے والے اندازاًتین ہزار سکولوں میں سے تقریباً نصف کی اب تک تعمیر نو نہیں کی جاسکی۔
ایرا کو تباہ ہونے والے 2925سکول ازسرنو تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
ایرا کے ریکارڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے اس تباہ کن زلزلے میں 2925سکول بدترین طورپر متاثر ہوئے یا مکمل طور پر تباہ ہوگئے جن میں سے 1698یا 58فی صد کی تعمیر نو مکمل ہوچکی ہے۔
آٹھ اکتوبر 2005ء کو ملک کے شمالی علاقہ جات بشمول خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر میں آنے والے زلرلے کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.6تھی۔
ایرا کے مطابق اس زلزلے میں 80ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ تقریباً75ہزارزخمی ہوئے۔ زلزلہ کے باعث 28لاکھ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے کیوں کہ گھروں، ہسپتالوں، سکولوں اور دیگر عمارتوں کی بڑی تعداد تباہ ہوگئی تھی۔
اس تباہ کن زلزلے کے بعد اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے ایرا قائم کی جس کا مقصد زلزلے سے متاثرہ علاقوں میںہنگامی بنیادوں پر تعمیراتی سرگرمیوں میں مدد فراہم کرنا تھا۔
ایرا کی ایک افسر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فنڈز کی کمی کے باعث11برس گزر جانے کے باوجود بحالی و تعمیرات کے منصوبے مکمل نہیں ہوپائے۔
ایراکی پبلک ریلیشنز آفیسر شازیہ حارث نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ فنڈز کی کمی کے باعث ہم سکولوں کی تعمیر نو کا ہدف پانے میں ناکام ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ 2005ء کے بعد ایرا نے 9491.023ملین روپے کی لاگت سے 1698سکولوں کی تعمیر نو مکمل کی ہے۔
شازیہ حارث نے مزید کہا کہ 1227سکولوں کی اب تک تعمیر نو ہونا باقی ہے جن میں سے 645سکولوں پر تعمیراتی کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا:’’ ان سکولوں پر جاری تعمیراتی کام اس وقت رُک جاتا ہے جب ہم فنڈز کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘
دسمبر 2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے ہزارہ ریجن کا دورہ کیا تو انہوں نے خطے میں تعمیراتی کاموں میں تاخیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ حکومت زلزلے سے متاثر ہونے والے سکولوں کو دوبارہ تعمیر کرے گی۔
انہوں نے ہزارہ کے عوام سے یہ وعدہ بھی کیا کہ شانگلہ، بٹگرام، مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے اضلاع میں تعلیمی مراکز قائم کئے جائیں گے۔
وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ اس منصوبے کے لیے تمام تر فنڈز وفاقی حکومت فراہم کرے گی جس کے لیے آٹھ ارب روپے مختص کیے گئے جب کہ وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے جاری دیگر منصوبے بھی خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو منتقل کردیے جائیں گے۔
لیکن وزیراعظم کے نئے سکول بنانے کا وعدہ اب تک پورا نہیں ہوا۔
شازیہ حارث نے کہا:’’ وزیراعظم کے بحالی پروگرام کے تحت صرف 76سکول ہی تعمیر کیے جاسکتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ وزیراعظم نے حکام کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ایک برس کے اندر اندر سکول تعمیر کریں لیکن فنڈز جاری نہ ہونے کے باعث دو برس گزرجانے کے باوجود سکولوں کی تعمیر کا کام التوا کا شکار ہورہا ہے۔
شازیہ حارث نے یہ نہیں بتایا کہ وزیراعظم کی سکیم کے تحت وعدہ کیے گئے فنڈز میں سے کس قدر سکولوں پر خرچ کیے جاچکے ہیں اور کیا باقی فنڈز کے جلد جاری ہونے کی کوئی امید ہے یا نہیں؟
خیبرپختونخوا کے محکمۂ تعلیم سے منسلک سینئر پلاننگ آفیسر حشمت علی نے کہاکہ سکولوں کی تعمیر نو کی ذمہ داری چونکہ ایرا کو دی گئی ہے جس کے باعث صوبائی محکمۂ تعلیم سکولوں کی تعمیر نو کے منصوبے پر کام نہیں کرسکتا۔
انہوں نے مزید کہا :’’ ہم نے تعمیر نو کی سرگرمیوں کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو فنڈز کے اجرا کے لیے بارہا خطوط لکھے ہیں، جن میں وفاقی حکومت سے یہ کہا ہے کہ وہ یہ فنڈز ایرا یا صوبائی حکومت کو جاری کردے تاکہ وہ یہ منصوبہ جلد از جلد مکمل کرلے لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے فی الحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔‘‘
حشمت علی کا کہنا تھا کہ وزیرتعلیم محمد عاطف اور خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق احمد غنی اس حوالے سے دو بار پریس کانفرنس بھی کرچکے ہیں لیکن وزیراعظم کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔
ڈائریکٹوریٹ برائے تعلیم سے منسلک ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹیبلشمنٹ صاحبزادہ حامد محمود نے کہا کہ زلزلے کے بعد مختلف غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے درجنوں سکول تعمیر کرنے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی اور ان غیر سرکاری تنظیموں نے چند ماہ میں ہی ان سکولوں کی تعمیر مکمل کرلی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری بہتر طورپر پوری کی۔