لاہور: صوبہ بلوچستان میںگزشتہ برس خود کش بم دھماکوں میں نمایاں اضافہ ہوا جن میں 230افراد ہلاک اورچار سو سے زائد زخمی ہوگئے۔
سرکاری و سکیورٹی حکام یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ تشدد میں اضافے کی وجہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے جس سے خطے میں پاکستان کے کچھ حریف ممالک ، خاص طورپر بھارت ناراض ہے۔
تاہم تجزیہ کار حکومت کے ان دعوئوں پر شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار وجاہت مسعود نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ گوادر کا گہرے پانیوں کی بندرگاہ کے طورپر کام شروع کرنا یقیناً بہت سی علاقائی و عالمی طاقتوں کے لیے ایک اچھی خبر نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ انڈیا اور ایران چوں کے قریب ہیں جس کے باعث وہ اس معاشی دوڑ میں واضح حریف ہیں۔‘‘
وجاہت مسعود نے مزید کہا کہ متحدۂ عرب امارات تجارت پر انحصار کرتا ہے جس کے باعث اس کا گوادر بندرگاہ سے رخصت اوروہاںلنگرانداز ہونے والے ہر جہاز پر پریشان ہونا فطری ہے۔ تاہم بلوچستان میں خودکش حملوں میں اضافے کی وجہ فرقہ ورانہ تصادم ہوسکتی ہے جو پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’سکے کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سی پیک منصوبے کے شروع ہونے کے بعد دہشت گردی کا آغاز نہیں ہوا۔ یہ طویل عرصہ سے جاری ہے جس کا تعلق اس ریاستی بیانیے سے ہے جس پر پاکستانی ریاست عمل پیرا ہے۔ حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والے حملے بلاشک و شبہ فرقہ ورانہ نوعیت کے ہیں۔‘‘
نو اگست کو کوئٹہ ہسپتال کے باہر ہونے والے ایک خودکش حملے میں 95افراد ہلاک ہوگئے۔ فوج کی انٹرسروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ حملہ بلوچستان میں بہتر ہوچکے حالات خراب کرنے کی کوشش ہے اور خاص طورپر سی پیک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف، وزیردفاع خواجہ آصف اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری نے بھی اسی طرح کے الزامات دہرائے۔ انہوں نے طویل عرصہ سے اپنے حریف پڑوسی ملک انڈیا پر بالواسطہ یا بلاواسطہ الزامات عائد کیے۔
اپریل 2015ء میں جب چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ پاکستان آئے اور انہوں نے اقتصادی راہداری کے منصوبے کا اعلان کیا تو تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔
بریگیڈیئر (ر) عامر گیلانی کہتے ہیں:’’ بلوچستان میں 2015ء کی نسبت 2016ء میںخودکش حملوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا،2015ء میں ایک خودکش حملہ ہوا تھاجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان نیا ہدف ہے جو سی پیک منصوبے کا اہم ترین مقام ہے۔‘‘ بریگیڈیئر (ر) عامر گیلانی پانچ برس تک بلوچستان میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
2015ء میں 17جولائی کو بریوری روڈ پر سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کے قریب ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ حملہ فرقہ ورانہ نوعیت کا تھا۔
بلوچستان پولیس کے ایک افسر زہراب خان بگٹی نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’تاہم 2016ء میں ہونے والے حملوں کی نوعیت مختلف ہے جن میں سکیورٹی فورسز اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جن کا مقصد صرف اور صرف سی پیک کو نقصان پہنچانا ہے۔‘‘
خودکش حملہ آوروں نے 2016ء کا آغاز جنوری میںکوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹائون میں تباہ کن حملہ کرکے کیا جس میں13پولیس اہل کاروں و فوجی سپاہی سمیت 15افراد ہلاک اور 25زخمی ہوگئے۔ اس حملے میں ہدف ہسپتال تھا۔ دو ہفتوں بعد ضلع ژوب میں کنٹونمنٹ کے قریب ایک اور حملہ ہوا جس میں پاکستانی آرمی کے چھ اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
تین فروری کو قلات میں تین خودکش بمباروں میں سے ایک کا دھماکہ خیزمواد پھٹ گیا۔ تین روز بعد کوئٹہ میں ملتان چوک پر ایف سی کی چوکی پر خودکش بم دھماکہ ہوا جس میں 12افراد ہلاک ہوگئے جن میں ایف سی کے چار افسر بھی شامل تھے اور38دیگر افراد زخمی ہوئے۔
آٹھ اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال کے باہر تباہ کن حملہ ہوا جس میں 95افراد ہلاک اور 100سے زائد زخمی ہوگئے۔ بمبار نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر انور کاسی کی موت کی تعزیت کے لیے جمع ہونے والے لوگوں کو نشانہ بنایا تھا، جنہیں چند گھنٹے قبل ہی گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا۔
ایسا ہی ایک اورتباہ کن حملہ 24اکتوبر کو نیوسریاب میں پولیس کے ٹریننگ سکول پر ہوا جس میں 61پولیس اہل کار ہلاک اور 164دیگر زخمی ہوگئے۔12نومبر کو حب میں شاہ نورانی کے مزار پر ہونے والے خودکش حملے میں 60افراد ہلاک ہوئے۔
سینئر صحافی اور بلوچستان کے امور کے ماہر راشد رحمان بھی انڈیا پر الزام عائد کرنے کی کوششوں کو رَد کرتے ہیں۔
انہوں نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ بلوچستان میں شورش کی ذمہ داری مکمل طورپر انڈیا پرعائد کرنا درست نہیں ہے۔ یہ الزام صوبہ میں اٹھنے والی ہر بغاوت پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’اگرچہ اس الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر اسے صرف ایک دلیل کے طورپر بھی قبول کرلیا جائے تو کیا یہ واضح نہیں ہے کہ بیرونی ہاتھ صرف اس ہی وقت مداخلت کرتا ہے جب حالات خراب ہوں؟‘‘
دریں اثناء حکومت سی پیک کی سکیورٹی کے لیے غیرمعمولی اقدامات کررہی ہے۔
محکمۂ داخلہ بلوچستان کے ایک افسر نے، شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، ٹروتھ ٹریکر کو کچھ اعداد وشمار فراہم کئے جن کے مطابق سی پیک کی سکیورٹی کے لیے 9,000ہزار فوجی اہل کار اور چھ ہزار سول آرمڈ فورسز کے اہل کار تعینات کئے گئے ہیں۔
سی پیک کی سکیورٹی کے تناظر میں گوادر سکیورٹی ٹاسک فورس کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ اس فورس کی سربراہی ایک بریگیڈیئر کو سونپی گئی ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اخراجات برداشت کررہی ہیں۔
سی پیک کی سکیورٹی پر اٹھنے والے غیرمعمولی اخراجات کے بارے میں اعداد و شمار وزیرخزانہ اسحق ڈار کی جانب سے فراہم کئے گئے جب انہوں نے گزشتہ برس مئی میں ایک نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی پرہونے والے ایک سو ارب کے اخراجات مالی خسارے میں شامل نہیں ہیں جو اس سال بھی مختص کئے جائیں گے۔
سی پیک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر میجر جنرل (ر) ظاہر شاہ نے گزشتہ برس جولائی میں پارلیمانی کمیٹی کے روبرو کہا تھا:’’ چینی سرمایہ کاری کا ایک فی صد منصوبے کی سکیورٹی پر خرچ کیا جائے گا۔‘‘
سی پیک کو پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے۔ فی الحال تو اس کی سکیورٹی کے اخراجات بلوچستان، بجلی کے صارفین اور عوام کو ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔