ڈیرہ اسماعیل خان:پاکستان کی افغانستان سے متصل سرحد پرآباد پسماندہ اور دوردراز قبائلی علاقوںکی پہلی یونیورسٹی میں تعلیمی سلسلے کا آغاز رواں برس اکتوبر سے ہورہا ہے۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرایم طاہر شاہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم اپنے طالب علموں کی مستقبل کے چیلنجوں سے نپٹنے کے لیے پرجوش انداز میں تربیت کررہے ہیں اور یونیورسٹی کا قیام قبائلی عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔‘‘
ڈاکٹر ایم طاہر شاہ کے پیشہ ورانہ ریکارڈ کے مطابق وہ پاکستان کے نمایاں ترین ارضی سائنس دانوں میں سے ایک ہیں جو قومی و عالمی کانفرنسوں میں 75مضامین پیش کرچکے ہیں اور عالمی سطح کے جرائد میں ان کے 160تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔
نیوز لینز پاکستان کو حاصل ہونے والی سرکاری دستاویزات کے مطابق فاٹا یونیورسٹی قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا تھا۔
دستاویزسے انکشاف ہوا کہ بالآخراس وقت کے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے عالمی معیار کی فاٹا یونیورسٹی قائم کرنے کا منصوبہ پیش کیا اور 16جنوری 2009ء کو فاٹا کے قانون سازوں کے ساتھ ملاقات میں اسے قائم کرنے کا اعلان کیا۔
تاہم سابق صدر آصف علی زرداری نے مئی 2013ء میں فاٹا یونیورسٹی کے قوانین منظور کیے۔
بعدازاںپاکستان مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت نے ’’فاٹا یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ‘‘ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) 2015-16ء میں شامل کیا جس پر ایک اندازے کے مطابق چار ارب اور 70کروڑ روپے کی لاگت آنا تھی اور اس کے لیے مالی سال برائے 2015-16ء میں 25کروڑ روپے مختص کیے گئے۔
ڈاکٹر ایم طاہر شاہ نے کہا کہ وہ طالب علموں کی پیشہ ورانہ زندگی میں کامیابی کے لیے ان کی تربیت کے حوالے سے ’’کوئی کسر نہیں چھوڑیں‘‘ گے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر یونیورسٹی نے سیاسیات، مینجمنٹ سائنسز، عمرانیات اور بی ایس ریاضی میں ملک بھر کے 100طالب علموں کو اوپن میرٹ پر داخلے کی پیش کش کی ہے۔
وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں، جو بڑے پیمانے پر قبائلی بیلٹ کے طور پر معروف ہیں، نے سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان خونیں جھڑپوں کے باعث افراتفری اور تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کیا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم فزیشنز فار سوشل ریسپانسبلٹی(PSR)کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں گزشتہ دہائی کے دوران ہونے والے پرتشدد واقعات میں 80ہزار پاکستانی ( عسکریت پسند، سکیورٹی اہل کار، شہری) مارے جاچکے ہیں۔
ڈگری کالج پشاور میں زیرِ تعلیم فاٹا کی طالبہ عائلہ نیلم کہتی ہیں کہ یونیورسٹی کے قیام سے علاقے میں ترقی اور انقلاب کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔
انہوں نے کہا:’’ قبائلی بیلٹ نے سنجیدہ نوعیت کی مشکلات جیسا کہ تعلیم، صحت اور زراعت کی سہولیات تک عدم رسائی کا سامنا کیا ہے جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
فاٹا سیکرٹریٹ اور بیورو آف سٹیسٹکس (Bureau of Statistics)کی حالیہ رائے شماری سے یہ ظاہر ہوا کہ فاٹا میں مجموعی شرح خواندگی 33.3فی صد ہے جو2013-14ء میں قومی شرح خواندگی کے حوالے سے مرتب کیے جانے والے اعداد و شمار سے خاصی کم ہے جس کے مطابق قومی شرح خواندگی 58فی صد ہے۔
فاٹا یونیورسٹی کے منیجر فنانس، پلاننگ و ڈویلپمنٹ محمد اسد جان نے کہا کہ طالب علموں کے پہلے بیچ کے داخلے کا عمل مکمل ہونے کے بعد فاٹا کے طالب علموں کے لیے بتدریج نشستیں مخصوص کی جائیں گی۔
قبائلی علاقے خیبر سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی بزرگ اسلم شاہ سے جب رابطہ قائم کیاگیا تو انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پورے فاٹا میں کوئی یونیورسٹی نہیں تھی اور طالب علموں کو ملکی یونیورسٹیوںجیسا کہ لاہور،پشاور اور کراچی میں داخلہ لینے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا پڑتا جو ان کے آبائی علاقوں سے خاصے دور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا یونیورسٹی مرد و زن کی تقسیم سے قطعٔ نظر خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر تعلیمی مواقع فراہم کرے گی۔
قبائلی بزرگ نے امید ظاہر کی:’’ خطے میں یونیورسٹی کے کام کرنے اور تعلیمی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث قبائلی عوام میں سے شدت پسند رجحانات کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد حاصل ہوگی۔‘‘
یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ فاٹا کے دوردراز علاقوں جیسا کہ مہمند اور شمالی وزیرستان میں بھی شاخیں کھولنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
دستاویز سے انکشاف ہوا کہ یونیورسٹی پشاورکے قریب ضلع کوہاٹ میں قائم ہے جس کے لیے فاٹا سیکرٹریٹ نے 33ایکڑ سے زیادہ اراضی حاصل کی جب کہ مزید 25ایکڑ اراضی کے حصول کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
وزارتِ تعلیم کی رپورٹ بعنوان ’’پاکستان میں تعلیم کی سطح 2004-05‘‘ میں فراہم کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فاٹا میں مجموعی طور پر 674,567تعلیمی ادارے قائم ہیں جن میں پرائمری، مڈل، ہائی، ہائر سیکنڈری سکول، کالجز ، مدارس وکمیونٹی سکولز وغیرہ شامل ہیں۔
فاٹا ریسرچ سنٹر کی رپورٹ کے مطابق خطے میں موجود طالبان نام نہاد مذہبی تناظر میں تعلیمی اداروں اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے سخت ناقد ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تباہ ہونے والے 458تعلیمی اداروں (پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سکینڈری سکول و کالجز) میں سے 317لڑکوں اور 141لڑکیوں کے تھے۔
فاٹاسے تعلق رکھنے والے ایک لیکچرار گل ولی دوتانی کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کے قیام کا اقدام جرأت مندانہ ہے جہاں طالب علم اپنے گھر کے قریب تعلیم حاصل کرپائیں گے۔
انہوں نے امید ظاہر کی:’’ یونیورسٹی عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقے میں تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کا باعث بنے گی۔‘‘
2013ء میں شائع ہونے والے نزاکت اعوان کے تحقیقی مقالے ’’فاٹا میں تعلیم‘‘ میں کہاگیا ہے کہ 1973ء کے دستور کی شق 37کے تحت یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناخواندگی ختم کرے اور پاکستان کے تمام شہریوں کو لازمی اور بلامعاوضہ تعلیم فراہم کرے۔
اس تحقیقی مقالے میں مزید کہاگیا ہے کہ فاٹا کے لیے مختص کیا گیا تعلیمی بجٹ ہمیشہ ہی کم رہا ہے جو 2001ء میں ڈیڑھ ارب تھا جسے 2004-05ء میں بڑھا کر 2.7ارب روپے کر دیاگیا۔
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون ساز ساجد حسین طوری کہتے ہیں:’’ ہم (فاٹا کے قانون ساز) حکومت پر فاٹا کے دوردراز علاقوں میں تعلیمی ادارے کھولنے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔‘‘