بنوں (احسان داور) 13برس کی ایمن شمالی وزیرستان کے ایک مقامی سکول میں جماعت پنجم کی طالبہ ہیں۔ یہ اس پوری قبائلی ایجنسی میں واحد فعال سکول ہے جہاں 15جنوری 2014ء کو شروع ہونے والا آپریشن ضربِ عضب حال ہی میں ختم ہوا ہے۔
دو برس قبل جب ایمن اور ان کا خاندان فوجی آپریشن کے باعث نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوا تو وہ اسی جماعت میں زیرِ تعلیم تھیں۔ گھر واپسی پر انہوں نے اِسی جماعت میں دوبارہ داخلہ لیا ہے۔
مقامی تعلیمی حکام کے مطابق شمالی وزیرستان میں کوئی سکول نہیں ہے جس کے باعث33ہزار سے زائد لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کرپارہیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی فرہاد علی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہمارے لیے یہ اس وقت بھی بہت مشکل تھا جب ہم اپنے دیہاتوں میں رہ رہے تھے۔ ہم اب نقل مکانی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور یہ ہمارے لیے ناممکن ہے کہ ہم ایک ایسے مقام پر ان کو سکول بھیجیں جہاں ہمیں متاثرین کہا جاتا ہے۔‘‘
شورش سے متاثرہ افراد کے لیے استعمال ہونے والی ’’متاثرین‘‘ کی اصطلاح توہین آمیز ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے آئی ڈی پیز دوسرے درجے کے شہری ظاہرہوتے ہیں۔
ایمن کے والد نور حسن، جو سعودی عرب میں ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں، نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میری بیٹی اپنی جماعت میں ٹاپ کیا کرتی تھی اور میں پُرامید تھا کہ وہ وقت پر اپنی تعلیم مکمل کرلے گی لیکن اب اس کے دو قیمتی برس ضایع ہوچکے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ میں نے بیرونِ ملک جانے کے بعد تعلیم کی اہمیت کا ادراک کیا۔‘‘
شمالی وزیرستان کے بہت سے قبائلیوں کی طرح نور حسن نے بھی خلیجی ممالک میں سے ایک میں ، جہاں ادنیٰ درجے کی ملازمتیں جیسا کہ ڈرائیونگ اور مزدوری ہی کی جاسکتی تھی، کام تلاش کیا۔
ایمن قبائلی علاقوں کی ان ہزاروں لڑکیوں میں سے ایک تھیں جوخواتین کی تعلیم کی مخالفت کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہوئیں جو اکثر و بیش تر سکولوں کو بم دھماکے سے تباہ کردیتے تھے۔
فاٹا سیکرٹریٹ، جو قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرتا ہے، کے مطابق قبائلی علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی صرف تین فی صدہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمۂ تعلیم کا ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم(ای ایم آئی ایس) کہتا ہے کہ یہ شرح اس سے بھی کم ہے جو صرف 1.74فی صد ہے۔
ای ایم آئی ایس کی فاٹا کے حوالے سے2014-15ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء کے دوران شمالی وزیرستان میںچار سے نو برس کی 25,980بچیاں پرائمری سکولوں میں زیرِتعلیم تھیں جب کہ 10سے14برس کی 1187لڑکیاں سکینڈری کی سطح پر تعلیم حاصل کررہی تھیں۔
شمالی وزیرستان میں 381پرائمری سکول ہیں جن میں طالبات کے لیے کمیونٹی اور مساجد سے ملحقہ سکول بھی شامل ہیں۔
’’مساجد میں قائم سکول‘‘ دراصل مساجد سے متصل حجروں میں قائم ہوتے ہیں اور انہیں مساجد کے امام چلاتے ہیں جو مذہبی اُستاد کے مقام پر بھی فائز ہوتے ہیں۔ان سکولوں کو فاٹا ڈائریکٹوریٹ برائے تعلیم نے قائم کیا ہے اور وہ ہی ان کو منتظم کرتا ہے۔
شمالی وزیرستان میں مڈل سکولوں کی تعداد 34ہے جن میں 664طالبات زیرِتعلیم ہیں۔ شمالی وزیرستان میں صرف نو ہائی سکول ہیں جن میں پوری ایجنسی سے 677لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
ای ایم آئی ایس سے منسلک ایک ذریعے نے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ شمالی وزیرستان میں لڑکیوں میں شرح خواندگی 0.15فی صد سے زیادہ نہیں ہے جب کہ لڑکوں میں یہ 17فی صد ہے۔
2015
ء کے اوآخر میں ای ایم آئی ایس کی جانب سے کیے جانے والے سروے سے یہ منکشف ہوا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے دو لاکھ طالب علم متاثر ہوئے جن میں سے 25ہزار ہائی سکول اور کالج کی سطح جب کہ 175,000مڈل کی سطح کے طالب علم تھے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی راہول اسلام ، جو بنوں کے مضافات میں رہتے ہیں، نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے نقل مکانی کرنے والے طالب علموں کو بنوں ، پشاور اور ان اضلاع کے سکولوں میں داخلہ دینے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا جہاں نقل مکانی کرنے والی آبادی کی اکثریت نے پناہ حاصل کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبات کے لیے کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا گیاتھا۔
راہول اسلام نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ وہ طالبات جو قبائلی روایات یا عسکریت پسندوں کی جانب سے درپیش خطرات کے باوجود اپنے آبائی علاقوں میں سکول جایا کرتی تھیں، ان کو گھر رہنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا:’’ ہم ایک اجنبی ماحول میں ان کو سکول کیسے بھیج سکتے ہیں، جب ہم یہ تک جانتے کہ آیا ان سکولوں کا ماحول ہماری بچیوں کے لیے محفوظ ہے یا نہیں؟ ہم اپنے تحفظ اور گزر بسر کے حوالے سے پریشان ہیں۔ ہم میں سے بہت سوں کے لیے نقل مکانی کے بعد بچوں کو سکول بھیجنا پریشان ہونے کی آخری وجہ تھی۔‘‘
والدین اسے علاقے میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے درپیش پریشان کن صورتِ حال کے لیے ایک سنجیدہ نوعیت کا دھچکا خیال کرتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران قبائلی علاقوں بشمول شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندی نے خواتین کی تعلیم پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جب مقامی عسکریت پسندوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے پمفلٹ جاری کیے اور والدین کو اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سکول بھیجنے پر سنگین نوعیت کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنے کے لیے خبردار کیا۔
مقامی رجعت پسندثقافت خواتین کی تعلیم کی راہ میں ہمیشہ سے ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے لیکن اس کے باوجود مقامی قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی بیٹیوں کو زیورِ تعلیم سے آرستہ کرنا چاہتی ہے۔
تاہم وہ طاقت ور طالبان یا پھر خطے میں ان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے مقابل مزاحمت نہیں کرسکتے۔
ان علاقوں میں ایسے مڈل اور ہائی سکول نہ ہونے کے باعث، جو لڑکیوں کے لیے آسانی کے ساتھ قابلِ رسائی ہوں، ایک ایسے مقام پر اعلیٰ تعلیم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جہاں والدین اپنی بیٹیوں کو بالغ ہونے کے بعد سکول نہیں بھیجنا چاہتے۔
ایک سماجی کارکن اور قبائلی رہنماء ہمایوں خان داوڑ نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں قائم سکولوں کا مقصد لوگوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اثر و رسوخ کے حامل مقامی قبائلی عمائدین کی جانب سے سیاسی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنے پریہ انہیںانعام کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔
وہ جب سکول قائم کرنے کے لیے اراضی عطیہ کرتے ہیں تویہ ان قبائلی عمائدین کی ملکیت قرار پاتے ہیں جنہیں درحقیقت کمیونٹی کی ملکیت ہونا چاہئے۔
ہمایوں خان داوڑ نے کہا:’’ ان عمارتوں کی اکثریت سکولوں کے بجائے حجروں کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا:’’ کچھ معاملات میں، جہاں یہ عمارتیں سکول کے طور پر استعمال ہورہی ہیں، مالکان کے خاندان کی خواتین ارکان کو اساتذہ کے طور پر تعینات کیا گیا ہے جنہیں میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود صرف مالکان کو خوش کرنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔‘‘
محکمۂ تعلیم نسواں سے منسلک اسسٹنٹ ڈائریکٹر گل رُخ نے کہا کہ محکمۂ تعلیم ان طالبات کا تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہے جن کا تعلیمی سلسلہ نقل مکانی کے باعث تعطل کا شکار ہوا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ ہم فاٹا اور خاص طور پر شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کو سکولوں سے نکالے جانے کی شرح سے آگاہ ہیں جو تقریباً72فی صد ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسے سکول جنہیں مَلک اپنے مہمان خانوں کے طور پر استعمال کررہے ہیں، ان سے سختی سے نپٹا جائے گا۔
گل رُخ نے کہا:’’ میں نے خوددیکھا ہے کہ خواتین اساتذہ کی رہائش گاہوں پر مالکان نے قبضہ کررکھا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ ایک خاتون استانی، جو مقامی علاقے سے تعلق نہیں رکھتی ، تدریس پر کس طرح توجہ مرکوز کرسکتی ہے جب اس کو سرے سے تحفظ ہی حاصل نہیں ہے۔‘‘
ان تلخ حقائق کے باوجود بہت سے والدین اب بھی اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے سکول بھیجنا چاہتے ہیں۔
عبداللہ خان دو بیٹیوں کے باپ ہیں جو نقل مکانی کرنے کے بعد اب واپس آچکے ہیں اوران کی بیٹیاں سکول جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ میں نے تجربے اور تلخ حالات سے یہ سبق سیکھا ہے کہ تعلیم صرف لڑکوں کا ہی حق نہیں ہے۔‘‘
عبداللہ خان نے کہا:’’ میری بیٹیوں کو اگرزندگی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہونا ہے تو ان کو لازمی طور پر اچھی تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔‘‘