لاہور ( دردانہ نجم سے) انسانی حقوق کے ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی جیلوں میں تشدد کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور گزشتہ ماہ دورانِ حراست اپوزیشن رہنما کی ہلاکت اس کی ایک مثال ہے۔
ایم کیو ایم کے سینئر رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار کے کوارڈینیٹر آفتاب احمدپاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے رینجرز کی حراست میں تین مئی کو وفات پاگئے۔
ابتداء میں موت کی وجہ ہارٹ اٹیک رپورٹ کی گئی، بعدازاں ان پر تشدد کی تصاویر منظرِ عام پر آئیں جو سوشل میڈیا پر عام ہوگئیں۔
ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے تسلیم کیا کہ آفتاب احمد پر دورانِ حراست تشدد کیا گیا تھاجو ان کی موت کی وجہ بنا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ تفتیش کے دوران ضابطۂ اخلاق پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان ( جے پی پی) کے شعبۂ ایڈووکیسی کی سربراہ زینب ملک نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آفتاب احمد کی ہلاکت پاکستان میں دورانِ حراست کیے جانے والے تشدد کی ایک مثال ہے۔ جیلوں میں بچوں اور خواتین پر تشدد عام ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ پولیس سٹیشنوں میں جیلوں میں قید خواتین سے پولیس افسر ریپ کرتے ہیں۔‘‘
زینب ملک نے پاکستان کے آئین کا حوالہ دیا کہ اس میں ہر قسم کے تشدد سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ لیکن آئین میں تشدد کرنے والے عناصر کی سزا تجویز نہیں کی گئی۔ آئین پر عملدرآمد کے لیے ایک اور قانون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان میں تشدد کو جرم قرار دینے کے لیے کوئی باضابطہ قانون موجود نہیں ہے۔
زینب ملک نے کہا:’’ پاکستان اقوامِ متحدہ کے تشدد کے خلاف کنونشن 2010ء کی توثیق کرچکا ہے۔ اس کنونشن پر دستخط کرنے والے ملک کے لیے لازم ہے کہ وہ دورانِ حراست تشدد کے خلاف قانون تشکیل دے جب کہ ذمہ داروں کے لیے سزائیں مقرر کی جائیں، متاثرہ فریق کی چارہ جوئی کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں اور تفتیشی میکانزم بہتر بنایا جائے۔‘‘
یہ اہم ہے کہ اس حوالے سے پولیس کا کوئی اثر و رسوخ نہ ہو۔ انہوں نے کہا:’’ اس وقت اگر ہم مجسٹریٹ سے دورانِ حراست تشدد کے خلاف شکایت بھی کرتے ہیں تو وہ یہ معاملہ پولیس کے سپرد کردیتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ قانونی ڈھانچے میںتعصب کا عنصر موجود ہے۔‘‘
زینب ملک نے مزید کہا:’’ آرمی پبلک سکول میں ہونے والے قتلِ عام کے بعدسزائے موت پر عملدرآمد شروع ہوا اور اب تک ایک بڑی تعداد میں لوگوں کوپھانسی دی جاچکی ہے۔ ہماری تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ مجرموں کی اکثریت پر تشدد کرکے ان سے اعترافِ جرم کروایا گیا۔‘‘
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق حکومت اس معاملے پر اس وقت ہی توجہ دیتی ہے جب عالمی دبائو بڑھتا ہے۔ وزیراعظم ہائوس نے فروری 2016ء میں ایک رپورٹ بعنوان ’’ انسانی حقوق کے حوالے سے قومی ایکشن پلان‘‘ جاری کی۔
اس رپورٹ میں مختلف اہداف مقرر کیے گئے تھے اور ڈیڈ لائن کے مطابق دورانِ حراست تشدد پر پابندی کے بل کو رواں برس جولائی تک منظور ہونا ہے۔
قانونی طورپر پاکستان کے آئین کی شق 14(2)کے تحت تشدد پر پابندی عاید ہے۔
آئین کہتا ہے:’’ شواہد کے حصول کے لیے کسی بھی شخص پر تشدد نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘
پاکستان اقوامِ متحدہ کے تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی اور نامناسب سلوک اور سزائوں(سی اے ٹی) کے خلاف کنونشن کی توثیق بھی کرچکا ہے۔ یہ کنونشن وضاحت کرتا ہے:
’’ تشدد کا مطلب ایسا کوئی بھی اقدام ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو جسمانی یا نفسیاتی اذیت دی جائے اور اس کا مقصد معلومات کا حصول یا اعترافِ جرم ہو۔‘‘
ایشین ہیومین رائٹس کمیشن کی جانب سے 2015ء میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق پولیس کی حراست میں 80فی صد قیدیوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ 72فی صد نتائج کے خوف کے باعث رپورٹ نہیں کرپاتے۔ تقریباً40فی صد قیدیوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
سنٹر فار پبلک پالیسی اینڈ گورننس کی 2013ء کی رپورٹ بعنوان ’’پولیسنگ، دورانِ حراست تشدد اور انسانی حقوق‘‘ میں یہ منکشف ہوا کہ تشدد ’’ پاکستان کے فوجداری انصاف کے نظام میں شواہد کے حصول کا اہم ترین حربہ ہے۔‘‘
مذکورہ رپورٹ میں تشدد کرنے اور تشدد برداشت کرنے والوںمیں’’ تشدد کی سماجی و ثقافتی قبولیت‘‘ کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔
وکیل ضیا احمد اعوان جسٹس پراجیکٹ پاکستان سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تعزیراتِ پاکستان میں ایسے قوانین موجود ہیں جو حراست کے معاملے کا احاطہ کرتے ہیں۔ تاہم ’’تشدد‘‘ کا لفظ تعزیراتِ پاکستان کی کسی شق میں استعمال نہیں ہوا۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ سیاست دان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دورانِ حراست تشدد کی روک تھام کے حوالے سے موجود قوانین پر عملدرآمد اور نئے قوانین کی تشکیل کے حوالے سے سیاسی عزم کا اظہار نہیں کررہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تشدد کی نہ صرف غیررسمی اجازت دے چکے ہیں بلکہ دورانِ حراست تشدد کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویے کا اظہاربھی کیا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان نے تشدد کے خلاف کنونشن پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومتی سنجیدگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کیا۔
انہوں نے کہا:’’ حکومت تشدد پر یقین رکھتی ہے۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت ہی زبردستی شواہد حاصل کرنے کے حوالے سے کی گئی ہے جس کامطلب تشدد کرنا ہی ہے۔‘‘
کچھ قانون ساز جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء فرحت اللہ بابر حکومت کی تشدد کی جانب توجہ مبذول کروانے کے لیے کوشش کرچکے ہیں۔ تاہم وہ اس حوالے سے قومی اسمبلی سے بل منظور نہیں کرواسکے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والی قانون ساز مائزہ حمید نے حال ہی میں ایسی ایک کوشش کی ہے۔ انہوں نے ایک بل بعنوان ‘‘ تشدد، دورانِ حراست موت‘‘ (تحفظ اور سزا)ایکٹ 2014ء پیش کیا ہے۔‘‘
انہوں نے ٹیلی فون پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل انسانی حقوق کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں زیرِبحث ہے۔
انہوں نے کہا:’’ ہم مذکورہ قانون کو تقریباً حتمی شکل دے چکے ہیں۔ صرف ایک نکتے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہیںہو اکہ رینجرز کی جانب سے دورانِ حراست تفتیشی طریقۂ کار کو اس میں شامل کیاجائے یا نہیں۔‘‘
وہ حکومت کی جانب سے جولائی 2016ء تک تشدد اور دورانِ حراست موت ( تحفظ اور سزا) بل 2013ء متعارف کروانے کے فیصلے سے آگاہ نہیں تھیں۔
قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ بابر نواز خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے دورانِ حراست تشدد کے تدارک کے لیے عالمی معیار کا جامع قانون متعارف کروانے کے حوالے سے اپنے جوش و جذبے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل رواں برس نومبر تک تیار ہوجانا چاہیے۔
مائزہ حمید کی طرح بابر نواز خان بھی اپنی حکومت کی جانب سے تشکیل دیے جارہے انسانی حقوق کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں آگاہ نہیں تھے۔