لاہور (دردانہ نجم سے) پاکستان میں اس وقت وزارتِ خارجہ کا باضابطہ نگران یا وزیرِ خارجہ کوئی نہیں ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان نے یہ پورٹ فولیو اپنے پاس رکھاہوا ہے ‘ سیاسی تجزیہ کار اسے حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔
یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نواز شریف یہ اہم پورٹ فولیو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تاکہ خارجہ امور کے پالیسی ساز ان کی نگرانی میں کام کریں۔
پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری کہتے ہیں:’’ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے خطے میں اہم پوزیشن اور امریکہ و بھارت کے بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کے ذریعے چین کے گھیرائو کے باعث پاکستان کا عالمی کردار انتہائی اہم ہوگیا ہے ، اس تناظر میں سفارتی مہارت ناگزیر ہے۔‘‘
قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز سے منسلک پروفیسرڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں کہ اگرچہ وزیراعظم وزارتِ خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھ سکتے ہیں لیکن یہ غلط فیصلہ ہے کیوں کہ وزیرخارجہ وفاقی کابینہ کا اہم ترین رُکن ہوتاہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ ہم نے تمام عالمی محاذوں پر ناکامی کا سامنا کیا ہے۔ پاکستان نے جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کروائی تو یہ فیصلہ ہوا تھا کہ تینوں ممالک پاکستان سے فوکل پرسن کا انتخاب کریں گے لیکن اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘‘
ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا:’’ اگرچہ وزیراعظم نے بہت سے دورے کیے ہیں اور مختلف ملکوں کے ساتھ معاہدے شروع کرنے کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے بہ مشکل ہی کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ یہ پالیسی کی ناکامی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا کوئی وزیرخارجہ نہیں ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف امورِ خارجہ کے مشیر اور وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ کو تعینات کرچکے ہیں۔ ان عہدوں پر فائز دونوں اشخاص سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کا پالیسی سازی کے حوالے سے کردار انتہائی محدود ہے۔
بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) حمید فاروق نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ان کا کردار صرف پالیسیوں پر عملدرآمد کروانے تک محدود ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث فوج بہت سے عالمی معاملات میں شامل ہوئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ میں یہ کسی بھی شک وشبہ کے بغیر کہتا ہوں کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ملک کے ڈی فیکٹو وزیرِ خارجہ ہیں۔‘‘
اہم ملکوں ، جیسا کہ ایران اور سعودی عرب،کے ہرتذویراتی دورے پر آرمی چیف راحیل شریف وزیراعظم کے ساتھ گئے ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) حمید فاروق نے کہا:’’ فوج یہ تصور کرتی ہے کہ نواز شریف اپنے امورِ خارجہ کے دو ماہرین کے ساتھ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے اور عالمی سفارت کاری کی ضروریات پر پورا نہیں اتر رہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان کا باضابطہ اور فعال وزیرِ خارجہ ہوتا تو امریکی کانگریس کے پاکستان کو ایف 16طیاروں کی کم قیمت پر فروخت روکنے کے فیصلے اور پاکستان میں امریکی ڈرون حملے میں ملا اختر منصور کی ہلاکت سے پیدا ہونے والے بحران سے مختلف انداز سے نپٹا جاتا۔ بریگیڈیئر (ر) حمید فاروق نے کہا:’’ چیف آف آرمی سٹاف نے ڈرون حملے پر امریکہ سے ذاتی طور پر احتجاج کیا۔‘‘
ان کا کہنا تھا:’’ امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی بھی یہ تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم وسائل نہ ہونے کے باعث ایف 16طیاروں کے حوالے سے معاہدے پر انڈین لابی کے اثر ورسوخ کو ذائل نہیں کرسکتے تھے۔ ان کا وسائل نہ ہونے سے مطلب یہ تھا کہ انڈیا نے 16لابنگ فرموں کی خدمات حاصل کررکھی ہے جب کہ پاکستان اس محاذ پر مکمل طور پر ناکام نظر آتا ہے۔‘‘بریگیڈیئر(ر) حمید فاروق نے مزید کہا:’’ پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں پاکستان نے دو لابنگ فرموں کی خدمات حاصل کررکھی تھی۔‘‘
  ان کا کہنا تھا:’’ اس تناظر میں میَں یہ کہوں گا کہ اگر ملک میں کوئی سفارت کاری ہورہی ہے تو وہ چیف آف آرمی سٹاف کی نگرانی میں عسکری سفارت کاری ہے۔‘‘
قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ سردار اویس احمد خان لغاری نے نیوز لینز پاکستان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کے حوالے سے فوج کے ساتھ تنائو کے تاثر کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ امور کے مشیروں کی تعیناتی آئینی طور پر کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ یہ وزیراعظم کی صوابدید پر ہے کہ وہ وزیرِ خارجہ تعینات کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں ہے جو خارجہ امور کو پیشہ ورانہ طور پر انجام دے سکتا ہو تو وہ خود کو وزیرِخارجہ تعینات کرسکتے ہیں۔‘‘
پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری نے وزیرِ خارجہ نہ ہونے کی وجوہات اور مضمرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کابینہ کو ذاتی جاگیر کے طور پر چلانے پر یقین رکھتے ہیںجس کے باعث انہوں نے اپنے قریبی لوگوں کو خارجہ امور کے مشیر کا قلمدان سونپا ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ وزیراعظم کے پاس عالمی سطح پر تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے والی صورتِ حال کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے نہ ہی وقت ہے اور نہ ہی وہ مطلوبہ اہلیت رکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے خلاف جو منفی تاثر ابھر رہا ہے، اس کے تدارک کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جارہے جس کے باعث یہ منفی تاثر تقویت پا رہا ہے۔‘‘
خورشید قصوری نے مزید کہا کہ وزیراعظم نیشنل سکیورٹی کونسل کے بھی خلاف ہیں۔ یہ ایک قانونی ضرورت ہے کہ خارجہ امور کے حوالے سے ہونے والے اجلاسوں کی کارروائی کو ریکارڈ کیا جائے۔وزیراعظم نہیں چاہتے کہ ایسا کیا جائے۔ وہ وزارت کے معاملات کو یوں چلا رہے ہیں جیسا کہ یہ ان کی ذاتی جاگیر ہو۔
انہوںنے مزید کہا:’’ انڈیا کے معاملے پر فوج اور حکومت کے درمیان کی تنائو کی وجہ بھی یہی ہے۔ گزشتہ برس جب انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے دورے پر آئے تو میری معلومات کے مطابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹنٹ جنرل (ر) نصیر خان جنجوعہ اور وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز اس بارے میں آگاہ نہیں تھے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here