اسلام آباد(رحمت محسود سے) اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمان کہے گی تو ملک کا اہم ترین اسلامی قانون ساز ادارہ توہینِ مذہب کے قوانین کا جائزہ لے سکتا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ محمد خان شیرانی نے نیوزلینز پاکستان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا:’’ ہم اپنے طور پر قانون کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ آئین کے آرٹیکل 229کے تحت ہم اسی صورت میں قانون پر نظرثانی کر سکتے ہیں جب پارلیمان اس حوالے سے تجاویز طلب کرے۔‘‘چناں چہ مشروط طور پر پاکستان میں رائج توہینِ مذہب کے قوانین میں ترمیم کے حوالے سے امید بندھی ہے جو مسلم و غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف بدترین طورپر غلط استعمال ہورہا ہے۔ اسامہ صدیقی اور زہرہ حیات کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ بعنوان ’’نفرت انگیز تقریر اور مقدس قوانین: پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین… متنازعہ بنیادیں، قانون میں موجود نقائص اور آزادانہ اظہارِ رائے پر بندشوں کے مضمرات‘‘ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں رائج توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت اسلام کی توہین کرنے پر کسی کو بھی سزائے موت سنائی جاسکتی ہے۔ اول، اس رپورٹ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مذہب سے متعلقہ جرائم کے حوالے سے 1860ء میں انڈیا پر برسرِاقتدار انگریز راج نے قانون مرتب کیاجس کا دائرہ کار 1927ء میں بڑھا دیا گیا۔ 1947ء میں ملک کوورثے میں یہ قوانین ہی ملے۔‘‘
تاہم مرحوم آمر جنرل ضیاء الحق نے 1980ء اور 1986ء کے دوران اس میں متعدد شقیں شامل کر دیں۔
توہینِ مذہب کے قوانین کے تحت مذہبی اجتماع میں خلل پیدا کرنا، مذہبی مقامات کی بے حرمتی یا ان کو تباہ کرنا جرم ہے۔ ان قوانین کے تحت اس کی سزا ایک سے 10برس تک قید ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین میں 1980ء کی دہائی کے بعد سے مختلف ادوار میں ترامیم ہوتی رہی ہیں۔ ان برسوں کے دوران اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیان دینے کو جرم قرار دیا گیا جس کے تحت تین برس تک سزا ہوتی ہے۔
1982ء میں ایک بار پھرقانون میں ترمیم کرتے ہوئے قرآن کی جان بوجھ کر بے حرمتی کرنے پر عمر قید کی سزا رکھی گئی۔ بعدازاں 1986ء میں ایک اور شق کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت نبی اکرمؐ کی توہین کرنے پر موت یا عمر قید کی سزا شامل کی گئی۔
بے لاگ بات کرنے کے عادی مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے مؤقف کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا:’’ہم لازمی طور پر جائزہ لیں گے اور اپنی تجاویز دیں گے۔‘‘وہ 2009ء میں صوبہ بلوچستان کے ضلع پشین میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے۔
میڈیامیں آنے والی رپورٹوں کے مطابق اس حملے میں پانچ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ مولانا محمد خان شیرانی دوٹوک انداز میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور دہشت گرد گروہوں پر تنقید کرتے ہیں۔
نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس (این سی جے پی) کی جانب سے 1987ء سے جمع کیے گئے اعداد و شمار سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کی مختلف شقوں کے تحت 633مسلمانوں، 187مسیحیوں، 21ہندوئوں اور 494احمدیوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔
سرکاری اور دیگر اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کا تناسب 3.7فی صد(ایک اندازے کے مطابق 60لاکھ ) ہے جن میں ہندوئوں اور مسیحیوں کی اکثریت ہے جبکہ سکھوں کی آبادی 30ہزار، بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادی 20ہزار ، پارسیوں کی آبادی 1822اور احمدیوں کی آبادی چھ لاکھ (درست اندازہ مرتب کرنا مشکل ہے کیوں کہ احمدی مردم شماری میں خود کو غیر مسلم کے طور پر رجسٹر کروانے کے حوالے سے تذبذب کا مظاہرہ کرتے ہیں) ہے۔ علاوہ ازیں دیگر مذہبی گروہوں میں بہائی، کیلاش، کیہال اور جین مت کے پیروکار شامل ہیں۔
اسامہ صدیقی اور زہرہ حیات کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ قوانین تشویش کا باعث بن رہے ہیں کیوں کہ ان کے ضابطۂ عمل میں واضح نقائص ہیں جن میں پاکستان کے موجودہ سیاسی و سماجی منظرنامے کے باعث مزید شدت پیدا ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان وجوہات کے باعث توہینِ مذہب کے قوانین اپنی موجودہ ہیئت میں قانون سازی کی ایک ایسی مثال ہیں جن کے باعث استحصال کرنا بہت آسان ہے جو ایک ایسے سماج میں رائج ہیں جہاں اکثر و بیش تر ان کا غلط استعمال ہوتا ہے۔
تعزیراتِ پاکستان کے تحت توہینِ مذہب کی سزا ایک برس سے لے کر سزائے موت تک ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298کے تحت کوئی بھی ایسا لفظ ادا کرنا یا کوئی آواز پیدا کرنا یا توہین آمیز حالت بنانا یا کوئی ایسی شے نظروں کے سامنے پیش کرنا، جس سے کسی کی مذہبی دل آزادی ہوتی ہو، ایک جرم ہے۔
اسی طرح دفعہ 298اے کے تحت مذہبی شخصیات کے متعلق توہین آمیز الفاظ کی ادائیگی ، دفعہ 298بی کے تحت مخصوص مذہبی شخصیات یا مقامات سے منسوب القابات کا غلط استعمال بھی جرم ہے۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295کے تحت کسی بھی مذہب کی توہین کی غرض سے اس کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانا یا اس کی بے حرمتی کرنا اور دفعہ 295اے کے تحت ایسی سرگرمیاں انجام دینا، جن کا مقصد اس مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکانا مقصود ہو، جرائم میں شامل ہیں۔
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295بی کے تحت قرآن کی بے حرمتی وغیرہ اور 295سی کے تحت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر نبی کریمؐ کی شان میں تحریری یا زبانی گستاخی کرنا جرم ہے۔
جولائی 2014ء میں میڈیا پر آنے والی رپورٹوں کے مطابق گوجرانوالہ میں ایک عورت اور اس کی دو رشتہ دار خواتین کو مذہبی تشدد پسندوں نے قتل کردیا تھا جن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے فیس بک پر توہینِ مذہب پر مبنی پوسٹ لگائی تھی۔
یہ خواتین احمدی فرقے سے تعلق رکھتی تھیں جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن انہیں آئینی طور پر دائرۂ اسلام سے خارج کیا جاچکا ہے۔ مشتعل ہجوم نے، اس افواہ کے بعد کہ مذکورہ کمیونٹی کی ایک رُکن کی جانب سے کعبہ کی ایک تصویرفیس بک پر پوسٹ کی گئی تھی جس میں اس مقدس مقام کی مبینہ طورپر بے حرمتی کی گئی تھی، کچھ عمارتوں اور ان عورتوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی، خانۂ کعبہ مسجدالحرام کے وسط میں قائم مسلمانوں کا قبلہ ہے۔
اسی طرح مارچ 2011ء میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو اسلام آباد میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔
شہباز بھٹی توہینِ مذہب کے قوانین میں اصلاح کے لیے کوشاں تھے۔حملہ آور شہباز بھٹی کو قتل کرنے کے بعد جائے وقوعہ پرایک پمفلٹ چھوڑ گئے جس میں انہیں ’’مسیحی کافر‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ اسی برس اس وقت کے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ان کے اپنے ہی باڈی گارڈ نے گولیاں مار کر شہید کردیا۔اس وقت ملک کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سلمان تاثیر کوتوہینِ مذہب کے قوانین پر تنقید کرنے کے باعث قتل کیا گیا۔
تاہم سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو فروری 2016ء میں راولپنڈی کی ایک جیل میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
مولانا محمد خان شیرانی کہتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس حوالے سے تجاویز دے چکی ہے جس کے تحت اگر کسی پر توہینِ مذہب کا الزام عاید جاتا ہے اور وہ عدالت میں ثابت نہیں ہوپاتاتواس صورت میں الزام عاید کرنے والے کو سزا دی جائے کیوں کہ اس نے غلط بیانی کی تھی۔
اُن سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا اس قانون کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے؟ مولانا محمد خان شیرانی نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا:’’ یہ فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال ہوا ہے یا نہیں۔‘‘
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک سینئر رُکن نے، نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر، کہا کہ سیکولر جماعتیں جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی توہینِ مذہب کے قانون میں ترمیم کرنا چاہتی تھی لیکن اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں اس معاملے کا حساس ہونا یا مذہبی حلقوں کی محالفت کے خوف کے باعث ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔
2010ء میں صرف ایک بار پیپلز پارٹی کی قانون ساز شیری رحمان نے توہینِ مذہب کے قوانین میں ترمیم کے لیے پارلیمان میں بل پیش کیا تھا۔ تاہم فروری 2011ء میں مذہبی جماعتوں کے دبائو کے باعث یہ بل واپس لے لیا گیا۔
جمعیتِ علمائے اسلام (ف) کے مذکورہ رُکن نے یہ تسلیم کیا:’’ کوئی بھی اس قانون کو غیر مسلموں کے خلاف سیاسی مقاصد کے حصول یا پھر ذاتی دشمنی کی غرض سے استعمال کرسکتا ہے۔‘‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق مئی 2015ء میں سینکڑوں مذہبی شدت پسند گرجا گھر پر حملہ کرنے کے لیے لاہور کی سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے مسیحی کمیونٹی کے رُکن کی جانب سے قرآن حکیم کی مبینہ بے حرمتی کے ردِعمل میں گھروں میں لوٹ مار بھی کی۔
ملزم ہمایوں پر یہ الزام عاید کیا گیا تھا کہ وہ قرآن کے اوراق نذرِ آتش کررہا تھا جس کے بعد اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
قانونی مشیر ریما عمر اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ توہینِ مذہب کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ججوں کو ملزموں کو سزا دینے کے لیے ’’دھمکایا اور ہراساں‘‘ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ بہت سے ججوں نے یہ شکایت کی ہے کہ ان کو یہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے توہینِ مذہب میں ملوث ملزموں کو رہا کیا تو ان پر حملہ کیا جائے گا۔
2012ء میں اپنے دورۂ پاکستان کے بعد آزادیٔ عدلیہ کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی نے کہا کہ توہینِ مذہب کے مقدمات میں عدلیہ کی آزادی خطرات کی زد پر ہے کیوں کہ ججوں پر’’ملزموں کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے دبائو‘‘ ہوتا ہے ۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے کپڑوں کے ایک تاجر محمد ادریس نے کہا کہ ہر مسلمان نبی کریمؐ سے غیر معمولی عقیدت اور محبت رکھتا ہے لیکن توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میرا خیال ہے کہ حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ یقینی بنانے کے لیے قانون کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔‘‘
اہلِ تشیع کے ایک مذہبی رہنما نے، اس سارے معاملے کی حساسیت کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر، کہا:’’ متعلقہ فریقین کی جانب سے قانون پر نظرثانی کی جائے اور اس حوالے سے مشترکہ اتفاقِ رائے سے ترمیم کی جائے۔‘‘