لاہور (دردانہ نجم سے)پنجابی یا کسی بھی دوسری علاقائی زبان کو سکولوں میں ذریعۂ تدریس بنانے کے حوالے سے عمومی پہلوتہی برتنے کا رویہ عام ہوچکا ہے۔ اس تذبذب کی بنیادی وجہ یہ تاثر ہے کہ ابتدائی جماعتوں میں انگریزی پڑھانے سے بچے زیادہ تہذیب یافتہ اور روشن خیال ہوں گے۔
گورنمنٹ پرائمری سکول شادیوال ماجھا، لاہور سے منسلک سابق استاد اقبال قیصر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پنجاب میں سکینڈری کی سطح پر انگریزی زبان پڑھانے پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے باعث سکول اور کالجز مترجم بنارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’پاکستان کے ہر تعلیمی کمیشن نے پرائمری کی سطح تک بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ وہ الفاظ جو بچہ گھر میں استعمال کرتا ہے، اس وقت بے معنی ہوجاتے ہیں جب اسے سکول میں ایک مختلف زبان میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘‘
اقبال قیصر نے کہا:’’ پنجاب میں کہیں بھی پرائمری کی سطح تک پنجابی زبان میں تعلیم نہیں دی جارہی جس کے باعث پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت سکول چھوڑنے والے بچوں کا تناسب زیادہ ہے۔ پرائمری کی سطح تک تقریباً50فی صد بچے سکول چھوڑجاتے ہیں۔ 25فی صد بچے میٹرک کی سطح تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں جب کہ صرف دو سے تین فی صد طالب علم ہی کالجوں یا یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں۔‘‘
جہاں تک علاقائی زبانیں پڑھانے کا تعلق ہے تو سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں صورتِ حال قدرے بہتر ہے۔ یہ تمام صوبے قوانین منظور کرچکے ہیں جن کے تحت علاقائی زبان کی بطور ایک مضمون تدریس لازمی قرار دی جاچکی ہے۔
ماہرین لسانیات کہتے ہیں:’’ ہم نے کچھ ایسا ہی سلوک اردو زبان کے ساتھ بھی کیا ہے۔‘‘
اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ پسماندہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچوں، جن کا ماحول انگریزی زبان سے مطابقت نہیں رکھتا، کے لیے سیکھنے کا عمل نہ صرف مشکل بلکہ غیر مؤثر بھی ثابت ہوتا ہے۔
یوں ہر آنے والی نسل رَٹا لگا کر بڑی ہورہی ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینیٹیز و سوشل سائنسز سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر فرخ عباس خان نے کہا کہ یہ ایک افسانہ ہی ہے کہ زبان آپ کو تہذیب یافتہ اور مہذب بناتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک غلط تاثر ہے کہ اگر ہم پرائمری کی سطح تک پنجابی زبان میں تعلیم دیتے ہیں تو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ اس سوچ کی وجہ وہ روایت پسندی ہے جو ہم پنجابی ثقافت سے منسلک کرچکے ہیں۔ ہم جب بھی پنجاب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو فوری طور پر صوفی منش یا گھبرو جوان کا تاثر ذہن میں ابھرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے تعلیمی تعصب کی جڑیں مقامی آبادی کی اپنی مادری زبان کے حوالے سے حساسیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اُردو اور انگریزی کوزریعۂ تدریس بنانے سے جڑی ہوئی ہیں۔ فرخ عباس خان کا کہنا تھا کہ ہر تحقیق میں بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی اہمیت ثابت ہوئی ہے لیکن تعلیمی نظام کے برے نتائج اور اس حوالے سے ہونے والے تحقیق بھی پالیسی سازوں میں کوئی نئی فکرنہیں ابھار سکی۔
رواں برس مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے یونیسکو کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کا عنوان ’’اگر آپ نہیں سمجھتے تو آپ کس طرح سیکھ پائیں گے؟‘‘ تھا۔
تعلیمی کارکن اسے حقِ تعلیم کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ دستورِ پاکستان حقِ تعلیم کو زبانوں سے جوڑتا ہے۔
آئین کی شق 251ریاست پر یہ شرط عاید کرتی ہے کہ وہ اُردو کو ملک کی سرکاری زبان قرار دے اور یہ وعدہ بھی کرتی ہے کہ صوبوں کی جانب سے علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
قانون کی رو سے دستور کی شق 251پردستور کے نافذالعمل ہونے کے بعد15برس کے اندر اندر عمل کیا جانا چاہیے۔ یہ عرصہ 1998ء میں ختم ہوگیا لیکن27برس گزر جانے کے باوجود اس شق پر عملدارآمد نہیں ہوا۔
کوکب اقبال کی جانب سے شق 251کے نفاذ کے لیے دائر کی گئی درخواست پرسپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ اُردو کو ملک کی سرکاری زبان کے طورپر رائج کریں اور علاقائی زبانوںکو تدریس کا ذریعہ بنائیں۔
نیوز لینز پاکستان نے جب پاکستان پنجابی ادبی بورڈ کے سربراہ مشتاق صوفی سے ان وجوہات کے بارے میں استفسار کیا جن کے باعث پنجابی کو ایک ایسی زبان کے طور پر نذرانداز کیا گیا ہے جس میں تدریس کے فرائض انجام دیے جائیں توانہوں نے کہا کہ جب تک کوئی زبان مہذب اور معاشی فوائد کے حصول کا ذریعہ تصور نہیں کی جاتی تو وہ اپنے بولنے والوں کی توجہ حاصل نہیں کرپاتی۔
انہوں نے مزید کہا:’’پنجابی زبان حقِ ملکیت کے نہ ہونے کے باعث نذر انداز ہوئی۔ جب ملازمتوں کے حصول کا انحصار انگریزی جاننے پر ہے تو ہم نے اردو اور بعدازاں پنجاب میں بولی جانے والی دیگر علاقائی زبانوں سے بے گانگی اختیار کرلی۔‘‘
مشتاق صوفی نے نیوزلینز پاکستان سے پنجابی زبان کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی ادب کی تاریخ ایک ہزار برس پرانی ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مغل سلطنت کے آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر پنجابی زبان میں بھی شاعری کیا کرتے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پنجابی کو ایک مہذب زبان تصور کیا جاتا تھا۔انڈیا پر برطانوی راج کے تسلط کے بعد پنجابی زبان کی سرکاری سطح پر بے قدری کی گئی تاکہ پنجابی بولنے والی آبادی اور ان کی زبان کے درمیان خلیج پیدا کی جاسکے۔ اس تعصب کی وجہ یہ تھی کہ برطانوی راج کو رنجیت سنگھ کے عہد میں سکھ حکمرانوں کے ہاتھوں مستقل طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پنجاب کئی برسوں کی جنگ کے بعد 1849ء میں برطانوی عملدآری میں آیا۔ بعدازاں اہلِ پنجاب اپنی ثقافت اور زبان سے ہی نفرت کرنے لگے۔
پاکستان پنجابی ادبی بورڈ کے زیرِاہتمام 21فروری 2016ء کو مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ریلی کا انعقاد بھی کیا گیا۔ پنجاب کے صوبائی وزرا اور دیگر سرکاری حکام نے ریلی میں شرکت کی۔ ان سب نے سکولوں میں پنجابی زبان متعارف کروانے کا وعدہ کیا۔
پاکستان پنجابی ادبی بورڈ نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ بھی دائر کی تھی تاکہ وہ پنجاب حکومت کو مجوزہ بل ’’The Punjab Promotion of Mother Language as Compulsory Additional Subject at Primary Level Act 2015‘‘ کو منظورکرنے کے وعدے کو پورا کرنے کے لیے ہدایات جاری کرے جو اس نے سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر کی ڈائریکٹر صغریٰ صدف نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ بل کا مسودہ وزارتِ قانون پنجاب کے پاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں برس 21فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن پرمنعقدہ تقریب کو دیکھ کروزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی یہ ادراک ہوا ہے کہ پنجابی کو سکولوں میں پرائمری کی سطح پر متعارف کروانے کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔