لاہور (دردانہ نجم سے) رواں برس ایک بار پھر پنجاب میں آلوئوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہوئی ہے۔ کسانوں کے لیے یہ لمحہ خوشی و طمانیت کا باعث ہونا چاہیے تھا لیکن ان کی مایوسی بڑھ گئی ہے کیوں کہ وہ اپنی فصل کی درست قیمت وصول کرنے کے قابل نہیں رہے۔کسان تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موجودہ قیمت پر وہ بہ مشکل اپنے اخراجات پورے کرسکتے ہیں۔

:Photo by News Lens Pakistan/
:Photo by News Lens Pakistan/

آلوئوں کی فی کلو قیمت رواں برس زیادہ پیداوار کے باعث 25روپے سے کم ہوکرسات روپے فی کلو گرام ہوگئی ہے۔
محکمۂ ذراعت پنجاب کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آلوئوں کی مقامی طور پر طلب 27لاکھ ٹن ہے جب کہ رواں برس 37لاکھ ٹن آلو کاشت کیے گئے ہیں۔
اکرام الحق کی پنجاب کے ضلع ساہیوال سے 15کلومیٹر کے فاصلے پر 6Rنامی گائوں میں 11ایکڑ زرعی اراضی ہے، آلوئوں کی قیمتوں میں اتار چڑھائو کے باعث وہ ایک بحران سے گزرتے ہیں تو دوسرا ان کا منتظر ہوتا ہے۔رواں برس بھی وہ پیداواری لاگت پوری کرنے کے قابل نہیں ہوسکے۔
اکرام الحق نے کہا:’’آلوئوں کی کاشت پراوسطاً فی ایکڑ ایک لاکھ روپے خرچ آتا ہے ۔ میری 11ایکڑ اراضی پر آلو کاشت کرنے پر 11لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ رواں برس آلوئوں کی چوں کہ بڑ ے پیمانے پر پیدا وار ہوئی ہے جس کے باعث میَں فی ایکڑ پیداوار کے 60ہزار روپے حاصل کرسکتا ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ مجموعی طور پر میں چھ لاکھ اور 60ہزار روپے وصول کروں گا جب کہ چارلاکھ اور 40ہزار روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔‘‘
آلوئوں کے مجموعی طور پر 1320بوروں میں سے اکرام نے اب تک صرف پانچ سو فروخت کیے ہیں ( ہر بورے میں تقریباً150کلو گرام آلو آتے ہیں)۔ انہوں نے تین سو بورے کولڈ سٹوریج میںجب کہ آلوئوں کا باقی سٹاک اپنے فارم پر محفوظ کیا ہے تاکہ جب بھی ان کی طلب ہو ، وہ فوری طور پر منڈی کا رُخ کرسکیں اور فوری طور پر کچھ رقم حاصل کر پائیں۔

: Photo by News Lens Pakistan/
: Photo by News Lens Pakistan/

اکرام کے مطابق گرمیوں کا موسم آلوئوں کے لیے بہتر نہیں ہے اوراگر یہ وقت پر فروخت نہ ہوں توخراب ہوجاتے ہیں۔ وہ ایک سیزن(10ماہ) تک فی بیگ کولڈ سٹوریج میں رکھنے کے چار سو روپے ادا کر یں گے جس سے ان کی لاگت مزید بڑھ جائے گی۔ اکرام پُرامید ہیں کہ وہ اپنے محفوظ کیے گئے آلو بہتر قیمت پر فروخت کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔
اکرام سے جب نیوز لینز پاکستان نے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں منڈی میں آلوئوں کی اس بڑے پیمانے پر پیداوار کی وجہ کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے جانا پہچانا جواب دیا؛حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث ایسا ہوا۔انہوں نے کہا کہ حکومت آلوئوں کی بڑے پیمانے پرکاشت کے باعث کسانوں کے لیے پیدا ہونے والے مسائل سے آگاہ تھی لیکن اس کے باوجود حکومت نے چھوٹے کسانوں کی مدد یا متبادل فصل کاشت کرنے کے حوالے سے کوئی آگاہی مہم نہیں چلائی۔
اکرام نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کسان پیکیج کا اعلان کرنے کی بجائے یہ چاہئے تھاکہ زرعی مصنوعات کی قیمت کم کرکے کاشت کی لاگت میں سبسڈی دی جائے۔انہوں نے کہا کہ بجلی، فرٹیلائزر، کیڑے مار ادویات اور ڈیزل سمیت ہر چیز کی قیمت بہت زیادہ ہوچکی ہے جو ایک کسان کے لیے برداشت کرنا مشکل ہے ، خاص طور پر جب زرعی شعبے کے بڑے نام اپنی مصنوعات ذاتی اور سیاسی روابط کے ذریعے فروخت کررہے ہوں۔
اکنامک سروے آف پاکستان 2014-15ء کے مطابق زرعی شعبہ ملکی جی ڈی پی میں 20.9فی صد حصہ ڈال رہا ہے اورقومی روزگار کی شرح 43.5فی صد اس سے منسلک ہے۔
پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر نے اکرام کے دعوئوں کی حمایت کی اور کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ زرعی زمین کو زونز میں تقسیم کرے تاکہ مختلف فصلوں کی کاشت میں توازن پیدا کرنے کے علاوہ ان کی طلب کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ انہوں نے کہا:’’ہم عالمی منڈی میں کہیں پر نظر نہیں آتے جس کی وجہ زرعی مصنوعات کی قیمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ ہم اس ضمن میں بہ مشکل انڈیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں کیوں کہ بھارتی حکومت کسانوں کو سبسڈی کے علاوہ دیگر سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ آلوئوں کی اضافی پیداوار کے باعث پیدا ہونے والے بحران کا تعلق بھی قیمت سے ہے جو حکومت کے بروقت انتظامات نہ کیے جانے کے باعث انتہائی کم ہو گئی ہے۔
کسانوں نے الزام عاید کیا کہ حکومت کی ردِعمل پر مبنی پالیسیاں اور حالات کا جائزہ لینے کے لیے درست حکمتِ عملی تشکیل نہ دینا اس صورتِ حال کی وجہ ہیں۔

: Photo by News Lens Pakistan/
: Photo by News Lens Pakistan/

نیوز لینز پاکستان سے ایک خصوصی انٹرویو میں بات کرتے ہوئے محکمۂ زراعت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل انجم علی نے کہا کہ کسانوں کی غلط امیدیں وابستہ کرلینے کے باعث ملک میں ہر برس قیمتوں میں اتار چڑھائو آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس اگر کسانوں کو آلوئوں کی بہتر قیمت مل جاتی ہے تو وہ اس کی کاشت اگلے برس بھی جاری رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی میکانزم اور قیمتوں میں اتارچڑھائو کے باعث کسان متوقع قیمت کے حصول میں ناکام ہوجاتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل زراعت نے مزید کہا:’’ ہم اگر آلوئوں سے دیگر مصنوعات بنائیں تو ان کی فروخت ممکن بنائی جاسکتی تھی ۔‘‘
انجم علی نے مزید کہا:’’ویلیو ایڈڈ مصنوعات اور براہِ راست مارکیٹنگ وہ دو حکمتِ عملیاں ہیں جنہیں کسانوں کا خالص منافع بڑھانے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم آلوئوں سے بننے والا پائوڈر بنانے کی منصوبہ بندی کرتے رہے لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ دنیا بھر میں آلوئوں سے بننے والے پائوڈر کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے ، اگرپاکستان میں بھی اس جانب توجہ دی جاتی ہے تو اس سے مقامی طور پر آلوئوں کی اضافی پیداوار کو منظم کرنے میں مدد حاصل ہوگی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ بورڈ آف انوسٹمنٹ اور ایکسپورٹ پروموشن بیورو کو اس حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انجم علی نے کہا کہ تاہم مقامی سطح پر آلوئوں کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے لیے حکومت نے اضافی آلوئوں کی برآمد کے لیے اقدامات کرلیے ہیں تاکہ کسانوں کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔
حکومتِ پنجاب کے محکمۂ پلانٹ پروٹیکشن سے منسلک ڈپٹی ڈائریکٹر (Quarantine)محمد طارق خان نے نیوز لینز پاکستان سے برآمد ات کے اعداد و شمار کے بارے میں بات کی۔ پاکستان23فروری 2016ء سے اب تک 10,2704.335ٹن آلومختلف ملکوں کو برآمد کرچکا ہے جن میں متحدہ عرب امارات (29890.268ٹن)،سری لنکا (35852.887ٹن)، ملائشیا(7996.5 ٹن)،قطر (2665ٹن)، بحرین (18259.13ٹن)، اومان (6193.44ٹن)، کویت (899.7ٹن)، مالدیپ (191ٹن)، سنگاپور (377ٹن)اور صومالیہ (349.575ٹن)شامل ہیں۔
حکومت کی ان تمام تر کوششوں کے باوجوز زعی کمیونٹی یہ محسوس کرتی ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔
کسان یہ یقین رکھتے ہیں کہ حکومت چھوٹے کسانوں کی ضروریات پورا کرنے کے حوالے سے بے حس رہی ہے جب کہ معاصر دنیا میں مقابلہ بڑھ چکا ہے اور گلوبل وارمنگ زرعی مصنوعات کے لیے تباہی کا باعث بن رہی ہے۔
وزیرِ زراعت پنجاب ڈاکٹر فرخ جاوید سے جب حکومت اور کسانوں کی کمیونٹی کے مابین رابطے نہ ہونے پر سوال کیا گیا تو انہوں نے اس حوالے سے اتفاق کیا اور نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس حوالے سے پل کا کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یکم مارچ 2016ء کو وزیراعلیٰ پنجاب لاہور میں زراعت کے موضوع پر ایک کانفرنس کرنے جارہے ہیں جس میں زرعی سائنس دان، محققین اور جدت پسند کسانوں کے علاوہ دیگر فریقین شریک ہوں گے جو کسانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں بات کریں گے۔
ڈاکٹر فرخ جاوید نے اتفاق کیا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کو سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں اور پیداوار پر لاگت ، جو اس وقت بہت زیادہ ہے، کم کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، لاہور سے منسلک اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر قیس اسلم نے کسانوں کی یہ کہتے ہوئے مذمت کی کہ زرعی شعبہ ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ دوسرا، وہ اپنی مصنوعات کو بہتر بنانے کے لیے کاشت کاری کی جدید تکنیکوں کا استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنے کے عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور خود کو کسانوں کی ادارہ جاتی معاونت فراہم کرنے تک محدود رکھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here