لاہور(قاسم علی سے)50سالہ بشیراں بی بی ایک گھریلو ملازمہ ہے جس کا ذریعہ معاش کاغذ کے لفافے بنانا ہے۔ اس کا شوہر پانچ سال پہلے انتقال کر گیا تھا۔ بشیراں دن بھر میں ایک ہزار لفافے بنا کر صرف 40 روپے کماتی ہے۔ اس کے لیے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا جب اسے پتا چلا کہ وہ گزشتہ کچھ ماہ سے تپ دق کی مریض بن چکی ہے۔
چہرے پر بہتے آنسوؤں کے ساتھ بشیراں نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا ’’ میں مرنے سے خوفزدہ نہیں ہوں لیکن جو چیز مجھے پریشان کرتی ہے وہ میرا علاج معالجہ ہے، میرے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں ہیں اور میں اپنی ادویات خریدنے کے بجائے اپنی بیٹیوں کو پالنے پر ترجیح دوں گی‘‘۔ گندے اور غیر صحت مند ماحول میں کام کرتے رہنے کے باعث اس کی بیماری شدت اختیار کر چکی ہے۔چھ ماہ قبل اس کی ایک کزن اور گھریلو ملازمہ تہمینہ کینسر کا شکار ہو کر چل بسی تھی کیونکہ وہ اپنے علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی تھی۔
پاکستان میں خواتین آبادی کے نصف حصے پر مشتمل ہیں۔ جن مسائل کا انہیں سامنا ہے وہ بہت پیچیدہ اور گھمبیر ہیں۔ زندگی ان کے لیے مصائب کا گڑھ بن چکی ہے۔ ثمینہ نے کہا جو لاہور میں ایک گھریلو ملازمہ ہے۔
لاہور کے مضافاتی علاقے دراوغہ والا کی رہائشی ثمینہ نے نیوز لینز پاکستان کو گھریلو ملازماؤں کی حالت زار کے متعلق بتایا۔ اس نے کہا کہ ورکرز کا غیر رسمی شعبہ مقامی اور ملکی معیشت میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس شعبے کے ورکرز کے لیے صحت کی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔
ثمینہ نے بتایا کہ ’’ میں جس علاقے میں رہتی ہوں وہاں لڑکیاں اور خواتین عمومی طور پر کپڑے،بیگ اور جوتے سلائی کرتی ہیں اور کپڑوں پر موتی ستارے ٹانکنے کا کام کرتی ہیں تاکہ دال روٹی کما سکیں، لیکن کام کا گھناؤنا ماحول ان کے لیے شدید نقصانات کا باعث بن رہا ہے۔ کم روشنی، تنگ کمرے، مضر صحت آب و ہوا، آلودہ ماحول اور گھریلو دباؤ ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے‘‘۔
ثمینہ ان مشکلات و مصائب کا سامنا کرنے والی اکیلی لڑکی نہیں ہے، ایسی خواتین کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جنہیں ثمینہ کی طرح مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مشکلات کی گھمبیر شکل لاہور کے مضافات میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں کثیر تعداد میں گھریلو ملازمائیں موجود ہیں۔ گھر کے روزمرہ کے کام کاج کے علاوہ یہ خواتین روٹی کمانے کے لیے اور بہت سے کام بھی کرتی ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ ’’ہمارے قدامت پسند معاشرے کی وجہ سے خواتین زیادہ عرصے تک گھر سے باہر نہیں رہ سکتیں، اسی لیے وہ گھر میں ہی کام کرنے کے لیے تمام ممکنہ مواقع تلاش کرتی ہیں تاکہ کچھ پیسے کما سکیں‘‘۔
کم عمر کشور بھی ایک گھریلو ملازمہ ہے۔ نیوز لینز پاکستان کے ساتھ انٹرویو میں کشور نے کہا کہ زیادہ تر گھریلو خواتین کی کوئی شناخت نہیں ہے، وہ منظر سے غائب ہیں اوران کی محنت اور کوششوں کو تسلیم بھی نہیں کیا جاتا کیونکہ پاکستان کے معاشرے میں مردوں کا غلبہ ہے۔’’ ہماری صحت کے مسائل بہت شدید ہیں، ان مسائل کے باعث ایک گھریلو ملاز مہ کی اوسط عمر عام فرد کے مقابلے میں نصف رہ گئی ہے ‘‘۔
اس نے مزید بتایا کہ ’’ کپڑوں پر موتی ستارے ٹانکنے کے کام میں مختلف کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں جن کی مدد سے موتیوں کو کپڑوں پر لگایا جاتا ہے، یہ کیمیکلز ہوا کو زہریلا کر دیتے ہیں اور موتی لگاتے وقت خواتین ملازمائیں اسی زہریلی ہوا میں سانس لیتی ہیں اور جب وہ اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں تو صورتحال اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے۔ یہ خواتین مختلف بیماریوں جیسے کہ تپ دق، ہیپاٹائٹس، گھٹنوں کا درد، نظر کی کمزوری اور شدید سردرد وغیرہ کا شکار ہو جاتی ہیں ‘‘۔ اس کا کہنا تھاکہ اسے بہت افسوس ہوتا ہے جب سرکاری ہسپتال اور نجی تنظیمیں بھی مشکلات میں گھری ان خواتین کو سہولیات فراہم نہیں کرتیں بلکہ آنکھیں بند کر لیتی ہیں۔
پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد گھریلو ملازمین کے حقوق وفاقی حکومت کے ذمہ آ گئے ہیں۔ ’’ہم بہت زیادہ کوششیں کر رہے ہیں کہ گھریلو ملازمین کے لیے مناسب پالیسی منظور کرا سکیں اور پارلیمنٹ میں اس پر قانون سازی ہو سکے، لیکن اتنے سالوں کے باوجود ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکے ‘‘۔ ماریہ کوکب نے بتایا جو ’ہوم نیٹ‘ میں سینئر پروگرام آفیسر ہیں۔ (یہ نیٹ ورک ان تنظیموں پر مشتمل ہے جو گھریلو ملازماؤں کے حقوق تسلیم کرانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں)
انہوں نے کہا کہ یہ بہت ہی نامناسب اور عجیب بات ہے کہ حکومت اتنے اہم مسئلے کو لٹکائے جا رہی ہے۔اگرچہ گھریلو ملازماؤں کی صحیح تعداد کے متعلق تو کچھ نہیں پتا کیونکہ اس معاملے پر کوئی تحقیق اور اعدادوشمار مرتب نہیں کیے گئے تاہم اندازوں کے مطابق ان کی تعداد کئی لاکھ ہے۔ یہ خواتین صوبے کے ہر ضلع میں کام کرتی ہیں اور انہیں کسی بھی قسم کے سماجی فوائد حاصل نہیں ہیں۔ انہیں خصوصی طور پر صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے جبکہ آسان شرائط پر قرضے بھی چاہئیں تاکہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر سکیں۔
رابعہ یاسین اسسٹنٹ ڈائریکٹر ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب، نے کہا کہ ’’ پنجاب حکومت نے خواتین کی بہتری اور انہیں آگے لانے کے لیے ایک محکمہ تشکیل دیا ہے جس کا نام ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ہے۔ اگرچہ اس محکمے نے کئی منصوبے شروع کئے ہیں تاہم ان سے گھریلو ملازماؤں کی صحت کے بحران کے حوالے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمے نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر ایک تربیتی پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت لاہور میں ایک ہزار گھریلو خواتین ملازماؤں کو تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس تربیت میں گھر کی دیکھ بھال، کھانا پکانا اور بچوں اور بوڑھوں کو سنبھالنے کے لیے خصوصی تربیت شامل ہے۔یہ تربیتی پروگرام 36دنوں پر مشتمل ہے اور تربیت لینے والی  ہر خاتون کو ٹرانسپورٹ کرائے کے لیے 3ہزار روپے دیئے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ منصوبہ ابھی ابتدائی اور تجرباتی شکل میں ہے اور ہم اگلے مرحلے میں اسے پورے صوبے تک وسیع کریں گے۔ 400 خواتین تربیت حاصل کر چکی ہیں جبکہ مزید 200 خواتین تربیت لے رہی ہیں۔اس کے علاوہ ہم ’روزگار‘ بینک سکیم پر بھی کام کر رہے ہیں جس کے تحت ان خواتین کو قرضے فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنا خود کا کاروبار شروع کر سکیں ‘‘۔ ہمارا ایک اور منصوبہ ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ڈے کیئر سنٹرز اور ہاسٹلز بنانے کا بھی ہے لیکن صحت کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی بھی بڑا منصوبہ فی الحال زیر غور نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم اگلے مرحلے میں اس پر غور کریں گے‘‘۔
پاکستان میں گھریلو ملازم کی اوسطاً ماہانہ آمدنی 30سے 40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اتنی ہی معمولی رقم کے لیے پورا گھرانہ ایک ہی چھت تلے کام کرتا ہے کیونکہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ غربت انتہائی اہم مسئلہ ہے کیونکہ گھر کے سربراہ کی آمدن اتنی نہیں ہوتی کہ وہ تمام اخراجات برداشت کر سکے اسی لیے خواتین کو بھی ہاتھ بٹانا پڑتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here