لاہور(دردانہ نجم سے)پنجاب حکومت کی جانب سے گھریلو ملازمین کو قانونی تحفظ دینے کی کوششوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے جس کی وجہ طریقہ کار کی رکاوٹیں اور موجودہ لیبر قوانین کے نفاذ میں حکومت کی غیر سنجیدگی ہے۔
ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں 85 لاکھ گھریلو ملازمین موجود ہیں۔
کوئی بھی مخصوص قانون گھریلو ملازمین کے حقوق کو تحفظ فراہم نہیں کرتا۔تاہم ان کے حقوق کے حوالے سے ایک ریفرنس  ’1961ء کے کم سے کم اجرت کے ایکٹ‘  اور ’ پراونشل ایمپلائز سوشل سکیورٹی آرڈیننس 1965‘ میں موجود ہے۔
کم سے کم اجرت کا قانون ’گھریلو ملازم‘ کی تعریف بھی ’ملازم‘ کے طور پر کرتا ہے جبکہ سوشل سکیورٹی آرڈیننس کے سیکشن 55-A کے مطابق ’’ ہر مالک اپنے اخراجات پر اپنے گھریلو ملازم کے علاج معالجے کا ذمہ دار ہے‘‘۔
گزشتہ پانچ عشروں سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان قوانین کو نافذ کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری سے قبل لیبر وفاقی حکومت کا موضوع تھا۔
10 دسمبر 2015ء کو لاہور ہائیکورٹ نے اپنے غیر معمولی فیصلے میں پنجاب حکومت کو ہدایات دیں کہ وہ ’1961ء کے کم سے کم اجرت کے ایکٹ‘ کو نافذ کرے تاکہ گھریلو ملازمین بھی حکومت کی جانب سے مقرر کر دہ کم ازکم اجرت کے قانون سے فائدہ حاصل کر سکیں۔
یہ فیصلہ ایک گھریلو ملازم صوبے خان کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران سنایا گیا، جس نے اپنے ظالم اور حد سے زیادہ کام لینے والے مالکان کی شکایت کی تھی کیونکہ وہ اپنے ملازموں کے ساتھ غلاموں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت اب تک ’پنجاب ڈومیسٹک ورکرز پالیسی 2015ء ‘کا مسودہ ہی ترتیب دے رہی ہے۔
سیکرٹری ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب آمنہ امام نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا کہ پالیسی کو جلد ہی منظور کر لیا جائے گا اور اس کا اعلان 8 مارچ 2016ء کو کیا جائے گا، جو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
فاروق طارق، جنرل سیکرٹری عوامی ورکرز پارٹی، کے مطابق گھریلو ملازمین کو قانونی تحفظ دینے میں حکومت کی ہچکچاہٹ اس کی مزدور مخالف پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر حکومت منہ پر تو ورکنگ کلاس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتی ہے لیکن حقیقت میں ہر حکومت اجرت کے کم سے کم قانون کو بھی نافذ کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
’’ نجی شعبے میں کم سے کم اجرت کے قانون کی خلاف ورزیوں کی بھرمار ہے، یہاں تک کہ اساتذہ کو بھی قانونی طور پر مقرر کردہ تنخواہ نہیں دی جاتی تو گھریلو ملازمین کی کیا بات کی جائے‘‘۔ طارق نے کہا۔
ایشیا پیسفک فورم آن ویمن کی جانب سے 2013ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پنجاب میں 56 فیصد گھریلو ملازمائیں ماہانہ صرف 1 سے 2 ہزار روپے کماتی ہیں (تقریباً 10 سے 20 ڈالر)۔
تحقیق کے مطابق گھریلو ملازمین کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے جو غربت اور کمزور معاشی حالات کے باعث گھر کو سنبھالنے کے لیے ملازمت پر مجبور ہوتی ہیں، اور بیروزگار شوہر گھریلو اخراجات میں تھوڑا بہت حصہ ڈالتے ہیں یا ان کے پاس بھی کچھ نہیں ہوتا۔
فرزانہ بیگم سکیم موڑ لاہور کے قریب ایک گھر میں کل وقتی (فل ٹائم) ملازمہ ہے۔ وہ ماہانہ 4 ہزار روپے کماتی ہے۔
’’ مجھے ایک سرونگ کوارٹر فراہم کیا گیا ہے اسی لیے میری مالکن توقع رکھتی ہے کہ میں ان کا ہر کام کروں گی۔ یہاں تک کہ میری 16 سالہ بیٹی سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹائے‘‘۔ فرزانہ نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا۔
15 سالہ روما راشد دو مختلف گھروں میں برتن صاف کرتی ہے اور دونوں گھروں سے بہ مشکل 4200 روپے کما پاتی ہے۔
’’ میں ایک پسماندہ خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرے والدین فوت ہو چکے ہیں اس لیے مجھے اپنے واسطے خود کمانا پڑتا ہے۔ میں کبھی سکول نہیں گئی جس کے باعث میرے پاس گھریلو ملازمہ بننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا‘‘۔
نیوز لینز پاکستان نے جتنی بھی گھریلو ملازماؤں سے بات کی ان میں سے کسی ایک کو بھی گھریلو ملازمین کے حقوق پر ہونے والی قانون سازی کے بارے میں کچھ نہیں پتا تھا۔
درشہوار، چیف آپریٹنگ آفیسر، آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا کہ ممکن ہے کہ پنجاب اسمبلی سے قانون پاس ہونے میں کئی سال لگ جائیں۔
’’ یہ ایک اہم معاملہ ہے، یہ کسی گھریلو ملازم کو مکمل ملازم کا درجہ دینے کا معاملہ نہیں ہے۔ جب تک رجسٹریشن کا ایک مکمل نظام، تربیت کی فراہمی اور ملازمتیں پیدا نہیں کی جاتیں، تب تک تمام قوانین کے باوجود گھریلو ملازمین کی کوئی شناخت نہیں ہو گی‘‘۔ شہوار نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 90 فیصد گھریلو ملازمین، جن کے ساتھ انہوں نے ٹریننگ کے سلسلے میں کام کیا، کے پاس قومی شناختی کارڈز نہیں تھے۔
اپوا 1000 عورتوں کو ہنرمند اور سند یافتہ گھریلو ملازم بنانے کے لیے تربیت دے رہی ہے، یہ تربیت پنجاب حکومت کے ویمن ایمپاورنمنٹ پیکج کے تحت دی جا رہی ہے جسے کینیڈا کی وزارت خارجہ اور ڈویلپمنٹ اینڈ ٹریڈ (ڈی ایف اے ٹی ڈی) کا مالی تعاون حاصل ہے۔
تربیتی پروگرام میں شامل ایک اور خاتون اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت گھریلو ملازمین کی تربیت پر پیسے خرچ کرنے سے ہچکچاتی رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ابتدا میں ہم ایک گھریلو ملازم کی تربیت پر 24 ہزار روپے خرچ کرتے تھے لیکن گزشتہ ماہ یہ رقم 13 ہزار روپے کر دی گئی ۔ زیادہ تر رقم دیگر منصوبوں کے لیے مختص کر دی گئی ہے جیسا کہ لیپ ٹاپ سکیم‘‘۔
تاہم تمام سٹیک ہولڈرز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ میں قانون نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
نیوز لینز پاکستان نے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف لیبر ویلفیئر پنجاب میں ڈائریکٹر لا اینڈ پالیسی غلام عباس چیمہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ محکمے کے پاس فنڈز، سٹاف اور دیگر ضروری سہولتوں جیسا کہ ٹرانسپورٹ وغیرہ کی کمی ہے۔
’’ گزشتہ 20 برسوں کے دوران پنجاب میں فیکٹریوں کی تعداد 4 ہزار سے 16 ہزار تک پہنچ چکی ہے تاہم لیبر آفیسرز کی تعداد 83 ہی ہے جو پہلے بھی اتنی تھی۔یہی معاملہ لیبر انسپکٹرز کا بھی ہے، کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ پورے پنجاب میں کتنی دکانیں ہوں گی لیکن انہیں چیک کرنے کے لیے لیبر انسپکٹرز کی تعداد صرف 73 ہے‘‘۔
’’ ہم گھریلو ملازمین کے مسئلے پر کام کر رہے ہیں۔معاملات طے ہونے میں وقت لگے گا۔ ہمارا عملہ تربیت یافتہ نہیں ہے اور یہ معاملہ گھروں کی دیکھ بھال کا ہے جو چیلنج ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔ چیمہ کا کہنا تھا۔
شمیم الرحمن، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پاکستان، گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے پنجاب حکومت کی کوششوں کو زیادہ آگے تک جاتا نہیں دیکھتے۔
نیوز لینز پاکستان سے فون پر بات کرتے ہوـئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت مشاورتی عمل پر یقین نہیں رکھتی، اس کے بجائے وہ مسئلے کا فوری حل چاہتی ہے، چاہے وہ پاکستان میں کام کے ماحول سے مطابقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ وقتی انتظام کے طور پر حکومت قانونی زبان میں گھریلو ملازمین کو تسلیم کرنے کے لیے انہیں مکمل ملازم کے درجے میں شامل کر سکتی ہے۔ ’’میرا یقین ہے کہ مسئلہ قانون سازوں کی ذہنیت ہے۔ جب تک وہ گھریلو ملازمین کی حالت بہتر کرنے کے معاملے میں حساس نہیں ہوتے تب تک کوئی قانون تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا‘‘۔
20 دسمبر 2014 میں پہلی دفعہ ’پنجاب انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ 2010‘ کے تحت گھریلو ملازمین کی یونین کو ڈیپارٹمنٹ آف لیبر پنجاب میں رجسٹرڈ کیا گیا۔
اس وقت یونین کے 235 ممبر ہیں جن میں سے 225 خواتین ہیں ، یونین کی صدر روما اور نائب صدر ثمینہ فاروق ہیں۔
ثمینہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ قانون سازی بہت طویل وقت لے گی۔ ’’ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک غیر متوقع سفر ہے۔ ہم ابھی تک پالیسی کی سطح پر ہیں لیکن ہم کم سے کم گھریلو ملازمین کو تسلیم کیے جانے کے لیے پرامید ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ گھریلو ملازمین کی تربیت کے لیے جاری کیے جانے والے فنڈز براہ راست متعلقہ افراد کو دیئے جائیں، این جی اوز جیسے کہ اپوا کو نہ دیئے جائیں کیونکہ یہاں زیادہ تر فنڈز خورد برد کر لیے جاتے ہیں یا کسی اورپراجیکٹ پر لگا دیئے جاتے ہیں۔
’’ میں نے اپوا سے کہا تھا کہ تربیتی مراکز مختلف جگہوں پر بنائے جائیں تاکہ ان مراکز تک رسائی آسان ہو، لیکن انہوں نے اس بات کو مسترد کر دیا اور اب خواتین کئی میل سفر کر کے اپوا تک پہنچتی ہیں اور انہیں آنے جانے کا کرایہ بھی نہیں دیا جاتا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر جاوید گل، پراجیکٹ ڈائریکٹر، انٹی گریٹڈ پراجیکٹ گورنمنٹ آف پنجاب، نے کہا کہ نمایاں طور پر ایک بڑا سیکٹر ہونے کے ناطے گھریلو ملازمین کو منظم کر کے انہیں غربت کے چکر سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کم سے کم اجرت کا قانون نافذ ہو گیا تو بیشتر مالکان کے لیے گھریلو ملازمین کافی مہنگے ثابت ہوں گے، لہٰذا ان ملازمین کی ڈیمانڈ میں حقیقی معنوں میں کمی ہو جائے گی۔ کام سے نکالے جانے کی صورت میں حکومت ان ملازمین کو چھوٹے قرضے فراہم کر کے اپنا کاروبار کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔
شمیم الرحمن نے کہا کہ اب تک گھریلو ملازمین کو اپنے آپ کو باوقار افرادی قوت کے طور پر منظم کرنے کا خیال نہیں آیا۔ اس جذبے کی غیر موجودگی میں کوئی بھی قانون ان کی زندگیوں میں تبدیلی نہیں لا سکتا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here