اسلام آباد (رحمت محسود سے) قبائلیوں کے مطابق نقل مکانی کرنے والے ہزاروں خاندان عسکریت پسندی سے متاثرہ جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقوں کی جانب واپس لوٹ رہے ہیں جہاں وہ اپنی زندگیوں کا نئے سرے سے آغاز کریں گے کیوں کہ نہ صرف ان کے مکانات بلکہ دیگر تعمیرات بھی عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باعث جزوی یا پھر مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔
2009ء میں پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف راہِ نجات کے نام سے فوجی آپریشن شروع کیا ‘ اس قبائلی علاقے میں پاکستانی طالبان کی تشکیل عمل میں آئی تھی جن کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوںکے باعث ہزاروں خاندانوں نے ملک کے مختلف اضلاع کی جانب نقل مکانی کی۔
جب سات برس قبل اس علاقے سے ریاست مخالف عناصر اور ان کے حامیوں کو پسپا کرنے کے لیے فوجی آپریشن کا آغاز ہوا تو سینکڑوں خاندان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
ان حالات میں جنوبی وزیرستان واپس جانے والے قبائلی نالاں ہیں اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر طالبان نے دوبارہ ان علاقوں کا رُخ کیا تووہ فوج کے ساتھ مل کران کا مقابلہ کریں گے۔ مقامی قبائلی نیک محمد، جو اپنے خاندان کے آٹھ افراد کے ساتھ تقریباً سات برس تک غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد حال ہی میں اپنے گائوں واپس لوٹے ہیں، کہتے ہیں:’’ ہم عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے باعث گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور تکالیف برداشت کرتے رہے۔لیکن اس کے باوجود اپنی دھرتی پر مرنے کو ترجیح دیں گے۔‘‘
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہل کار شہید اور زخمی ہوئے۔ نوبیل انعام حاصل کرنے والے ادارے ’’اتحادِطبیعات دان برائے انسداد ِ نیوکلیائی جنگ‘‘ نے حال ہی میں تفصیلی رپورٹ بعنوان ’’ 2004ء سے 2013ء تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے 10برسوں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں‘‘ میں لکھا ہے ،’’ ایک اندازے کے مطابق اس عرصہ کے دوران کم از کم 80ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے جن میں سکیورٹی اہل کار، شہری اور باغی بھی شامل ہیں۔‘‘
44برس کے ایک کسان محمد نواز ، جو اپنے گائوں واپس لوٹ چکے ہیں، کہتے ہیں:’’ اپنے خاندان کے ساتھ آبائی گھر واپس لوٹا تو دیکھا کہ وہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شیلنگ کے باعث تین کمرے منہدم ہوچکے تھے جس کے باعث ہم نے گھر کے عقبی صحن میں قیام کیا۔‘‘
آئی ڈی پیز کی واپسی کا عمل گزشتہ ایک برس سے جاری ہے جب فوج نے کچھ علاقوں کو عسکریت پسندوں سے خالی کروا لیا تھا۔
مقامی انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر واپس آنے والے خاندان کو سفر اور مختلف اخراجات کی مد میں 35ہزار روپے ادا کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ اس مالی امداد کے علاوہ ہر خاندان کو چھ ماہ تک کا راشن فراہم کرنے کے علاوہ ایک کچن کٹ اور ٹینٹ بھی فراہم کیا جائے گا۔ ‘‘
مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ واپسی کا عمل مختلف مراحل میں جاری ہے اوریہ قوی امکان ہے کہ آئی ڈی پیز کی واپسی کا حتمی مرحلہ دسمبر 2016ء تک مکمل کرلیاجائے گا۔
سابق سفارت کار، قبائلی و افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند نے کہا کہ آئی ڈی پیز کو ان کے تباہ حال گھروں میں واپس آباد کرنا ایک ’’سیاسی چال‘‘ ہے جس کے باعث آئی ڈی پیز کی مزید تذلیل ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ حکام کوواپسی کا عمل شروع کرنے سے قبل گھروںاور ہسپتالوں کی تعمیر کے علاوہ صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے تھی لیکن اس حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا۔‘‘
قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد نے کہا کہ دیہاتوں کے دیہات کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیںجس کے باعث گھروں میں رہنا ممکن نہیں رہا۔
ایک قبائلی سجاد احمد نے کہا:’’ میراگھر11کمروں پر مشتمل تھا لیکن اب سب کے سب منہدم ہوچکے ہیں جب کہ اس کی کھڑکیاں اوردروازے چوری ہوگئے ہیں۔‘‘ وہ ایک سرکاری ملازم ہیں جو حال ہی میں اپنے گائوںمیں دو روز گزار کر واپس لوٹے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ تعلیمی ادارے اور ہسپتال نہ ہونے اور منہدم ہوچکے گھر کے باعث میں نے واپس ڈیرہ اسماعیل خان کا رُخ کیا اور کرایے کے ایک مکان میں رہائش اختیار کی ہے … یہ جنوبی وزیرستان کی سرحد سے متصل صوبہ خیبرپختونخوا کا ایک ضلع ہے۔‘‘
مقامی قبائلی اور سرکاری حکام کہتے ہیں کہ سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان کئی برسوں تک جاری رہنے والے تصادم کے باعث خطے میں گھروں اور کھیتوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔
امریکی صدر باراک اوبامہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ’’دنیا کا خطرناک ترین مقام قرار دے چکے ہیں۔‘‘قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے تھنک ٹینک فاٹا ریسرچ سنٹر کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی وزیرستان کی آبادی تقریباً چار لاکھ 30ہزار ہے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے کی مجموعی آبادی چھ لاکھ تک ہے۔
فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ بحالی و تعمیر ِنو یونٹ کو ہدایات جاری کی جاچکی ہیں کہ وہ قبائلی علاقوں میں گھروں اور دیگر تعمیرات کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ مرتب کرنے کے لیے سروے کریں۔
انہوں نے مزید کہا:’’مقامی انتظامیہ اور فوجی افسروں کے علاوہ قبائلی عمائدین سروے مکمل کرنے میں بحالی و تعمیرِ نو یونٹ کی معاونت کر رہے ہیں تاکہ قبائلیوں کو جلد از جلد زرتلافی ادا کیا جاسکے۔‘‘
جنوبی وزیرستان میں فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے رابطہ کار سعید عمر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سروے مکمل ہوتے ساتھ ہی جزوی اور مکمل طور پرتباہ ہونے والے مکانات کے مالکان کو بالترتیب ڈیڑھ سے چار لاکھ روپے تک زرِتلافی ادا کردیا جائے گا۔
سجاد احمد نے آئی ڈی پیز کے مکانات کے لیے مختص کیے گئے فنڈز کی شفافیت پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ایک مکان کس طرح چار لاکھ روپے میں تعمیر ہوسکتا ہے؟ انہوں نے افسردگی سے کہا:’’ کیا آپ میرے لیے اس رقم سے ایک کمرہ تعمیر کر سکتے ہیں؟‘‘
سعید عمر نے کہا:’’ خیبر، کرم، اورکزئی اور شمالی وزیرستان میں بھی نقصانات کا تہمینہ لگانے کے لیے اسی نوعیت کے سروے کیے جارہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں مجموعی طور پر 63,722رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ خاندان واپس اپنے علاقوں میں لوٹ چکے ہیں۔
عسکریت پسندوں سے خالی کروائے جانے والے اس علاقے کو کبھی دہشت اور خوف کے سایوں نے جکڑ رکھا تھا۔
مختلف خاندانوں کی واپسی کے عمل میں اس وجہ سے بھی تیزی آئی ہے کہ ان علاقوں کو فوج کے چھ برسوں پر محیط عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران خالی کروا لیا گیا ہے۔
تجزیہ کار وں اور قبائلیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میںترقیاتی منصوبے شروع کرے تاکہ شدت پسندوں کی طویل المدتی تناظر میں حوصلہ شکنی ممکن ہوسکے۔