پنجاب حکومت کی عدم توجہی کے باعث شعبۂ صحت روبۂ زوال

0
1300
: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai
: Photo By News Lens Pakistan /

لاہور ( سمیرا علی سے) پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت میں برسرِاقتدار حکومت کی تمام تر توجہ صوبے میں بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے پر ہے اور وہ اپنے تمام تر وسائل ان منصوبوں پر خرچ کر رہی ہے جس کے باعث شعبۂ صحت بدترین طور پر متاثر ہوا ہے۔
ان منصوبوں کے متاثرین اس صورتِ حال پر شکایت کناں ہیں اور تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔ایک ایسی ہی مثال لاہور سے 20کلومیٹر کی مسافت پر قائم ایوان ڈیال والہ کے علاقے میں قائم ہسپتال ہے۔ لاہور پاکستان کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور پاکستان مسلم لیگ نواز کا گڑھ ہے۔
باعثِ افسوس امر یہ ہے کہ ہسپتال میں بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں ہیں جن میں سی ٹی سکین، وینٹی لیشن، آئی سی یو وارڈز وغیرہ شامل ہیں جب کہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملہ بھی ناکافی ہے جس کے باعث یہ بہ ظاہر ہسپتال دکھائی نہیں دیتا۔ اس دیہی علاقے کے ایک لاکھ باسیوں کے لیے صرف دو ڈاکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ایک مقامی کسان عدنان حنیف نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کی عمارت قید خانے کا منظر پیش کرتی ہے جس کے اطراف میں ٹھہرے ہوئے پانی کے باعث ہیپاٹائٹس سی اور ڈینگی کے امراض پھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریضوں کا معائنہ کرنے پر مامور ایک یا دو ڈاکٹر دوپہر دو بجے ہسپتال سے رخصت ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے نجی کلینکوں پر جاکر مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں اور اضافی رقم کماتے ہیں۔
انہوں نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس کے تحت ان ڈاکٹروں کے اوقات کار اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھی جاسکے جو مقامی آبادی کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کر رہے۔‘‘
مختلف رپورٹوں کے مطابق ڈاکٹر اور پیرمیڈیکل عملہ بھی کئی کئی مہینوں تک ہسپتال کا رُخ نہیں کرتا۔ ایک مقامی سکول سے منسلک استاد احسن علی نے کہا:’’ہسپتال میں طبی آلات اور دیگر سہولیات تودستیاب نہیں ہیں لیکن ڈاکٹر بھی گھوسٹ ملازمین ہیں جو تنخواہیں تو لیتے ہیں لیکن ہسپتال سے غیرحاضر رہتے ہیں۔‘‘ احسن علی کے صاحب زادے اسی نوعیت کی غفلت کا شکار ہوچکے ہیں کیوں کہ ہسپتال سے ڈاکٹروں کی غیرحاضری اور ایمرجنسی کے لیے ادویات نہ ہونے کے باعث اس کے زخم خراب ہوگئے تھے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فیفن) کے سربراہ مدثر رضوی نے حکومتی نظام کی شفافیت اور احتساب کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری شعبۂ صحت میں نگرانی کے مؤثر نظام کے نہ ہونے پر عاید کی۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ غیر سرکاری طور پر اس حوالے سے کام ہورہا ہے جیسا کہ ہم نظام میں خامیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں لیکن حکومتی احتساب کا نظام سِرے سے موجود ہی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ احتساب نہ ہونے کے باعث عام لوگوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
فیفن نے ملک بھر میں قائم ہسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز سے متعلق کوائف بھی یکجا کیے ہیں اور اس کی آخری رپورٹ 2013ء میں جاری کی گئی تھی۔
 ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر زاہد پرویز سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں قائم بنیادی مراکزِ صحت کی حالتِ زار سے متعلق ان کو اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ حکومت تمام بنیادی مراکز صحت کی نگرانی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ہر نئے نظام کو عوام کے لیے مفید بنانے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے اور ہم نے طبی سہولیات کے فقدان کے حوالے سے ، اگر ایسا ہی ہے، کوائف جمع کرنا شروع کر دیئے ہیں۔‘‘
تاہم انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ نگرانی کا نظام درست نہ ہونے کے باعث یہ بحران مستقبل قریب میں ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن یہ یقین رکھتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز شعبۂ صحت کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار ڈاکٹر حسین نے کہا کہ ڈاکٹروں کی اکثریت نجی ملازمتوں کو ترجیح دیتی ہے یا پھر بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک کا رُخ کرتی ہے کیوں کہ ان کو سرکاری ہسپتال میں طویل ملازمتوں کا معقول معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔
صوبہ میں شعبۂ صحت پرعدم اعتماد میں اضافہ ہورہا ہے اور صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی کامطالبہ واضح طور پر زور پکڑ رہا ہے۔ پاکستان ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں آبادی کی ایک بڑی اکثریت اور خاص طور پر دیہی علاقوںکے باسیوں کی صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here