لاہور ( سمیرا علی سے) دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان کے تحت حکومت نے پاکستان بھر میں ترجیحی بنیادوں پر تمام مذہبی مدارس کو رجسٹر کرنے اور ان کے نصاب میںاصلاحات کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن صورتِ حال واضح نہ ہونے اورقومی ایکشن پلان کے سست روی کے ساتھ نفاذ کے باعث یہ ایک مشکل ٹاسک بن چکا ہے۔
پاکستان کے مذہبی مدارس پرعرصہ دراز سے ملک میں دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے اور ان کی معاونت کرنے کا الزام عاید کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں برسرِاقتدار آنے والی مختلف حکومتوں کو مدارس کے شدت پسندی کے فروغ میں کردار کے حوالے سے خفیہ اداروں کی جانب سے شواہد فراہم کیے جاتے رہے ہیں۔مدارس کافرقہ واریت کے فروغ میں کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
حکومتِ پنجاب کو موصول ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے تین ہزار سے زائد طالب علم پنجاب کے 209مدارس میں زیرِتعلیم ہیں۔
قومی ایکشن پلان کے تحت مدارس کی رجسٹریشن ملک سے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو پسپا کرنے کے لیے دہشت گردی کے تدارک کے لیے تشکیل دی گئی حکمتِ عملی کے تین مراحل میں سے ایک ہے۔حال ہی میں شہید ہونے والے پنجاب کے وزیرِ داخلہ شجاع خانزادہ نے 14فروری 2015ء کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پنجاب میں قائم تقریباً12ہزار میں سے نصف مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے سات ستمبر کو وفاق المدارس کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: تمام علمائے کرام مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات پر متفق ہیں۔ لیکن وہ رجسٹریشن کے عمل کو سادہ رکھنے کے خواہاں ہیں جس کے لیے حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس عمل کی نگرانی کرنے کے علاوہ رجسٹریشن کا عمل آسان بنائے گی۔
لیکن اگر ایک جانب مختلف مکاتبِ فکر کے علما حکومت کے ساتھ بہت سے امور پر متفق ہیں تواس کے ساتھ ہی وہ چند اہم نکات پرمختلف نقطۂ نظر بھی رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت حقیقی عوامل سے نظریں چرا کر حقیقت پسندانہ اور منطقی رویے کا اظہار نہیں کر رہی۔
پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر 24ہزار مدارس ہیں جن میں سے 13,600پاکستان علما کونسل کے ساتھ منسلک ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن، آڈٹ اور فنڈنگ سے متعلق معلومات وزارتِ داخلہ کو فراہم کی جاچکی ہیں۔
ان مدارس پر اکثر و بیش تر شدت پسند اسلام کے فروغ کا الزام عاید کیا جاتا ہے145 مولانا طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ اس حوالے سے لوگوںکا طرزِ فکر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ہم نے اپنے مدارس میں سات سوسے زائد خطیبوں کی تربیت کا اہتمام کیا ہے تاکہ طالب علموں کے نقطۂ نظر میںلچک پیدا کی جاسکے اور وہ بنیاد پسندی اور شدت پسندی کی جانب راغب نہ ہوں۔
تاہم وہ حکومت کو بھی عوام میں فروغ پذیر شدت پسند رویوں اور طرزِ فکر کا یکساں طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا: پاکستان میں قائم بہت سی یونیورسٹیاں شدت پسند تنظیموں سے منسلک طلبا تنظیموں کی یا تو حمایت کر رہی ہیں یا ان کے حوالے سے انہوں نے نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
اہل حدیث مکتبۂ فکرکے جید رہنما مولانا ابتسام الٰہی ظہیر نے مدارس کو نشانہ بنانے پر حکومت پر کڑی تنقید کی ۔ انہوں نے کہا: حکومت مدارس کا احتساب کرنے سے قبل غیر سرکاری تنظیموں کی فنڈنگ کے نظام میں شفافیت پیدا کرے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اہل حدیت مکتبۂ فکر سے منسلک مدارس کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے اور یہ سب رجسٹرڈ نہیں ہیں کیوں اس سے قبل ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا: اگر چند دہشت گرد مدارس میں زیرِتعلیم رہے ہیں تویہ کوئی باعثِ تشویش اَمر نہیں ہے145 بہت سے دہشت گرد یونیورسٹیوں سے بھی فارغ التحصیل تھے۔
فرقہ ورانہ تشدد کے فروغ پر مدارس کے کردار پر بات کرتے ہوئے بریلوی مکتبۂ فکر کے رہنما علامہ راغب نعیمی نے کہاکہ یہ ایک مفروضہ ہے جسے ملک بھر میں مستقل طور پر فروغ دیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا: کراچی کے سانحہ صفورہ میں، جس میں ایک بس پر فائرنگ کرکے 50افراد کو ہلاک کر دیا گیاتھا، مدارس کے طالب علم ملوث نہیں تھے بلکہ یہ کارروائی کراچی کی ایک یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طالب علموں کی جانب سے کی گئی تھی جنہوں نے کچھ بیرونی عناصر کے اشارے پر ایسا کیا۔
انہوں نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگرچہ بہت سے دہشت گردوں کا تعلق مدارس سے ثابت ہوچکا ہے لیکن تمام مدارس میں دہشت گرد زیرِتعلیم نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: وزیرداخلہ خود یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ 250مدارس شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث ہیں لیکن حکومت کیوں کر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی؟ مولانا راغب نعیمی نے دہشت گردی سے نپٹنے کے لیے حکومت کے عزم پر بھی سوال اٹھایا۔
ملک بھر میں بریلوی مکتبۂ فکر کے آٹھ ہزار مدارس قائم ہیں۔
لیکن سب سے مختلف رائے کا اظہار علامہ عباس کمیلی نے کیاجنہوں نے تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کی رجسٹریشن کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا: پاکستان میں مدرسہ چلانا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث کوئی بھی گروہ مدرسہ کھول کر ان طالب علموں میںاپنے نظریات کا پرچار کرسکتا ہے جو رسمی تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
انہوں نے مدارس کے نصاب میں اصلاحات کرنے کے علاوہ اسے نفرت انگیز مواد سے پاک کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اگر کسی دہشت گرد گروہ کا ان مدارس سے تعلق ثابت ہوتا ہے تو حکومت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے کیوں کہ صرف مدارس کی رجسٹریشن سے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ حکومت کو اس سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ مدارس کے حوالے سے کسی خفیہ رپورٹ میں ان مدارس کے دہشت گردی کی سرگرمیوںمیں ملوث ہونے کے حوالے سے کوئی شواہد پیش کیے جاتے ہیں تو فوری طور پر کارروائی عمل میں لائی جائے۔