پشاور: کھلونا پستولوں پرمستقل پابندی عاید کی جائے: ماہرین

0
5206

: Photo By News Lens Pakistan /

پشاور (انعام اللہ سے) پشاور کی ضلعی حکومت نے رمضان المبارک کے دوران ایک بار پھر کھلونا پستولوں کی فروخت پر پابندی عاید کر دی تھی تاکہ والدین اور مقامی آبادی میں یہ شعور پیدا کیا جائے کہ اس نوعیت کے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے سے ان کے بچے پرتشدد ثقافت کے اثرات قبول کرسکتے ہیں۔ 
ڈپٹی کمشنر پشاور کے افسرِ تعلقاتِ عامہ فیروز شاہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا :’’ رمضان المبارک میں چوں کہ کھلونا پستولوں کی فروخت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور والدین بچوں کو کھلونا پستول عیدی کے طور پر دیتے ہیں جس کے باعث ہر برس ماہِ صیام کے دوران ان کی فروخت پر پابندی عاید کر دی جاتی ہے۔‘‘
ڈپٹی کمشنر پشاور نے شہرکی پولیس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 188کے تحت کھلونا پستول فروخت کرنے والوں کو گرفتار کریں۔ اگر پولیس کسی کو قانون کی خلاف ورزی میں ملوث قرار پاتی ہے تو اسے اس دفعہ کے تحت گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
فیروز شاہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی حکومت نے اب تک 28دکانوں کو سِیل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں ایسے مزید دکان داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا:’’ ہم میڈیا کو اس بارے میں ہونے والی پیش رفت سے اگلے چند روز میں آگاہ کریں گے۔‘‘کھلونا پستولوں کے خلاف مہم میں پیش پیش پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پوہا فاؤنڈیشن اس پابندی کو غیر حقیقی قرار دیتی ہے۔
پوہا فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شفیق گگیانی نے کہا:’’ کھلونا پستولوں کی فروخت پر ایک ماہ کی پابندی کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں ہے۔ حکومت کو کھلونا پستولوں کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس عفریت سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جاسکے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ خیبرپختونخوا میں چار بڑے درآمد کنندگان کھلونا پستولیں فروخت کر رہے ہیں۔ یہ اَمر باعث افسوس ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کھلونا پستولوں کے بچوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے آگاہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک تاجر کے مطمأ نظر معاشی فائدہ ہوتا ہے‘ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تفریح یا نفع اندوزی کے نام پر کیے جانے والے اس ضرر رساں کاروبار سے لوگوں کا تحفظ یقینی بنائے۔‘‘
شفیق گگیانی نے مزید کہا:’’ ہم نادانستگی میں خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ پشتو میں ایک گیت ہے جس کے بول ہیں ’’خودکشہ دھماکہ‘‘ (خودکش دھماکہ) اور ریستورانوں کے نام شیخ بمبار تکہ ہاؤس وغیرہ ہیں۔‘‘
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال سے منسلک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نرگس اسد میڈیا میں یہ کہہ چکی ہیں کہ پستولوں اور اس نوعیت کے دیگر کھلونوں کی نمایش سماج میں بچوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بچے بم دھماکوں، ہدفی قتلوں، ہلاکت گیری کے واقعات کے باعث پہلے سے ہی بدترین تشدد میں گھِرے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ امریکی شہریوں نے 70ء کی دہائی میں کھلونا پستولوں کے خلاف زبردست تحریک چلائی تھی لیکن بدقسمتی سے ہمارے سماج میں والدین اس نوعیت کی سرگرمیوں اور اس کے مضمرات سے آگاہ نہیں ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نرگس اسد نے مزید کہا:’’ بچوں نے منفی کارٹون کردار پسند کرنا شروع کردیے ہیں اور وہ کھیلوں میں ’’دہشت گرد‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس نوعیت کے کھلونوں کے باعث بچوں کے مزاج میں نہ صرف جارحانہ پن نمایاں ہوا ہے بلکہ منفی انداز سے دوسروں پر اثرانداز ہونے کی خواہش کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ بچے جو ایسے کارٹون دیکھتے ہیں جن میں تشدد کا عنصر غالب ہو‘ ان کا رویہ دیگر بچوں کی نسبت مختلف ہوتا ہے۔اور یوں بچے پرتشد رویوں کو قبول کرنے لگتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مشورہ دیا:’’ والدین کو اپنے بچوں کے لیے کھلونے خریدنے کے ضمن میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین وہ کھلونے منتخب کریں جن سے بچوں کی نہ صرف ذہنی پرداخت ہو بلکہ تجریدی اور منطقی سوچ پیدا ہونے کے علاوہ ان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہو۔والدین بچوں میں متشدد رویوں کے تدارک کے ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘‘
پختونخوا کلچرل فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد روم نے نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین برسوں سے ان کی تنظیم کھلونا پستولوں کے بچوں پر اثرات جانچنے کے علاوہ یہ جاننے کی کوشش بھی کر رہی ہے کہ ان کھلونوں کے استعمال سے بچوں میں کس طرح جارحانہ رویے فروغ پذیر ہوتے ہیں۔
ایک صوبائی قانون ساز جعفر شاہ نے کہا کہ کھلونا پستولوں کے خلاف قانون سازی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میں نے گزشتہ برس خیبرپختونخوا اسمبلی میں کھلونا پستولوں کے خلاف قرارداد پیش کی تھی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد سے اس حوالے سے اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ میں رواں برس ایک اور قرارداد پیش کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہوں تاکہ اس اہم ترین مسئلے پر حکومتی خاموشی کے قفل کو توڑاجاسکے۔‘‘
جعفر شاہ نے مزید کہا:’’ کھلونا پستولیں دہشت کی علامت ہیں۔ ان سے بچے یہ سیکھتے ہیں کہ طاقت کا استعمال کرنا منفی عمل نہیں ہے۔ یہ رویہ ان میں بالآخر عسکریت پسندانہ اور جارحانہ رویوں کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
پشاور کی معروف پیپل مارکیٹ میں قائم کھلونوں کی دکان کے مالک ناصر خان نے کہا کہ انتظامیہ نے تاجروں کو آگاہ کیے بغیر ہی کھلونا پستولوں کی فروخت پر پابندی عاید کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور کھلونے کی دیگر دکانوں کے مالکان پہلے ہی لاکھوں روپے مالیت کی کھلونا پستولیں خرید چکے ہیں۔
انہوں نے استفسار کیا:’’کیا حکومت خواہاں ہے کہ ہم ان کھلونا پستولوں کو تلف کر دیں؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ ہم لازمی طور پر کھلونا پستولوں کو فروخت کریں گے۔‘‘
ناصر خان نے مزید کہا:’’ حکومت کھلونا پستولوں پریا تو مستقل طور پر یا پھر دوسری صورت میں ایک ماہ کے لیے بھی پابندی عاید نہ کی جائے کیوں کہ اس سے ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہے جب کہ اس کے ساتھ ہی اس پابندی کے کوئی خاطر خواہ نتائج بھی برآمد نہیں ہوتے۔‘‘
پشاور میں کھلونوں کا کاروبار کرنے والے نبی گل اتفاق کرتے ہیں کہ جدید کھلونا پستولیں تشویش ناک حد تک حقیقی دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کھلونا پستولوں میں استعمال ہونے والی ربڑ کی گولیاں بھی بازار میں دستیاب ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here