بلوچستان: قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل تاحال عمل میں نہیں آسکی

0
3730

پشاور (صفی اللہ شاہوانی سے) رواں ماہ حکومتِ بلوچستان کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ میں قائمہ کمیٹیوں کی تجاویز کو شامل نہیں کیا گیا جس کا مطلب شفافیت، جواب دہی اور بہتر گورننس ہے اور جو مختلف محکموں کے بجٹ آڈٹ سے قبل اور بعد میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ بلوچستان کا ایسا اولین بجٹ نہیں ہے۔
گزشتہ کئی حکومتوں کی طرح اس صوبائی اسمبلی کی بھی کوئی قائمہ کمیٹی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی اس روایت کو نہیں توڑا جسے اڑھائی برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ہنوز قائمہ کمیٹیوں کو تشکیل دینا ہے جس کے باعث محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے تجاویز اور ان کے احتساب کے بغیر ہی ایک اور بجٹ پیش کر دیا گیاہے۔
قائمہ کمیٹیاں دنیا بھر کے قانونی ڈھانچوں میں تشکیل دی جاتی ہے تاکہ قانون سازی سے متعلقہ امور کی ذمہ داری خصوصی کمیٹیوں کو سونپی جاسکے۔ برطانوی ایوانِ زیریں برٹش ہاؤس آف کامنز اور امریکی قانون سازی کے منتخب ادارے کانگریس میں قانون سازی کے لیے خصوصی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں جن میں پارلیمانی افیئرز، پبلک اکاؤنٹس، خارجہ امور وغیرہ پر قائمہ کمیٹیاں کام کر رہی ہیں‘ یہ فہرست خاصی طویل ہے۔
1973ء کے دستورِ پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں قائمہ کمیٹیوں کے قیام کی شق موجود ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور دیگر تینوں صوبوں میں قائمہ کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں لیکن بلوچستان میں اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی گیلری کے چیئرمین عبدالخالق رند نے کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کا معاملہ 2004ء سے تاخیر کا شکار ہورہا ہے جب میر جام محمد یوسف وزیراعلیٰ تھے۔ ان کی حکومت قائمہ کمیٹیوں کے بغیر ہی کام کرتی رہی۔کچھ ایسی ہی روایت اس کے بعد آنے والی نواب اسلم رئیسانی کی حکومت میں دہرائی گئی جب اپریل 2008ء سے مئی 2013ء تک پانچ برسوں کے دوران ایک قائمہ کمیٹی بھی تشکیل نہیں دی گئی۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ موجودہ حکومت ستمبر 2013ء میں برسرِاقتدار آئی لیکن بلوچستان اسمبلی میں اب تک کوئی قائمہ کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی۔‘‘
عبدالخالق رند نے قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر کی ذمہ داری ارکانِ پارلیمان پر عائد کی جو احتساب سے خوف زدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت آئینی طور پر وزرا اور وزیراعلیٰ کے احتساب کے لیے 19قائمہ کمیٹیاں بنانے کی پابند ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا معاملہ زیرِبحث ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ نو قائمہ کمیٹیاں مسلم لیگ نواز، پانچ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور تین نیشنل پارٹی کے ارکان کی سرپرستی میں قائم ہوں گی۔ یہ تینوں جماعتیں صوبائی حکومت میں اتحادی ہیں۔ حزبِ اختلاف دو کمیٹیاں تشکیل دے گی۔
عبدالخاق رند نے مزید کہا:’’یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت احتساب سے بچنے کے لیے قائمہ کمیٹیوں کی باگ دوڑ اپنے اتحادیوں کو سونپ رہی ہے۔ پاکستان میں یہ ان دنوں آئینی روایت بن چکی ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن رہنما سنبھالتا ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف بلوچستان کے شعبۂ سیاسیات میں اسسٹنٹ پروفیسر قادر بریچ نے کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا مقصد قانونی عمل میں معاونت فراہم کرنا ہے کیوں کہ ارکان تمام شعبوں میں مہارت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا: ’’اس وجہ سے مختلف شعبوں میں دلچسپی رکھنے والے اور مہات کے حامل ارکانِ پارلیمان کو قائمہ کمیٹیوں میں شامل کیا جاتا ہے جو ہر محکمہ سے متعلق قانون سازی کی ضرورت کے متعلق تحقیق کرتے ہیں۔‘‘ قادر بریچ نے مزید کہا کہ ان قائمہ کمیٹیوں میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سب سے اہم ہے کیوں کہ اسے تمام محکموں کے اخراجات سے متعلق تفتیش کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹیاں مختلف معاملات پر تحقیق کرنے کے بعد قانون سازی کے امور پر تجاویز دیتی ہیں۔
اُن سے جب بلوچستان حکومت کی تشکیل کے دو برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود کمیٹیاں قائم نہ کیے جانے کے بارے میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹیاں تو گزشتہ دورِ حکومت میں بھی تشکیل نہیں دی گئی تھیں۔قادر بریچ نے کہا کہ اسلم رئیسانی کے دورِ حکومت میں 65کے ایوان میں سے 64ارکان کابینہ میں شامل تھے اور صرف ایک رکن حزبِ اختلاف کی نمائندگی کر رہا تھا جس نے کبھی اسمبلی کا رُخ نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا:’’ اس ایک مثال سے صوبہ میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے سیاست دانوں کی کمٹمنٹ کا اظہار ہوجاتا ہے۔‘‘
قادر بریچ نے موجودہ حکومت کے بارے میں کہا کہ اس کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سب سے پہلے تویہ ایک اتحادی حکومت ہے جس کے باعث یہ کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ دوسرا، افسرِ شاہی، جو محکموں پراپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتی ہے، اور بریت کی روایت اس حوالے سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی کے ارکان جمہوری روایات میں دلچسپی نہیں رکھتے اور ان کی معتبریت کا اندازہ تو اس سے ہوجاتا ہے کہ ان میں سے ایک رُکن صرف پانچ سو ووٹ لے کر اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ پانچ سو ووٹوں کی ایک بڑے حلقے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ قادر بریچ کا مزید کہنا تھا کہ اس سے صوبہ میں سیاست کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا بھی اظہار ہوتا ہے جن کے باعث مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔
انہوں نے جمہوریت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ چرچل کے ان الفاظ کو ذہن میں رکھنا چاہیے :’’ میں اپنی اہلیہ سے زیادہ قائدِ حزبِ اختلاف کے بارے میں آگاہی رکھتا ہوں۔‘‘ قادر بریچ نے استفسار کیا کہ جب تمام اراکینِ اسمبلی ہی حکومت کا حصہ ہوں گے جیسا کہ بلوچستان کی گزشتہ دورِ حکومت میں ہوا تو قائمہ کمیٹیوں میں کون شامل ہوگا؟
حکومتِ بلوچستان کے ترجمان جان محمد بلیدی نے کہا کہ حکومت نے بلوچستان میں 19قائمہ کمیٹیاں قائم کرنے کے لیے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جو جلد تشکیل دے دی جائیں گے۔
انہوں نے کہا :’’ ہم نے قائمہ کمیٹیوں کے لیے اپنی جماعت کے تین رہنماؤں کے نام دیے ہیں۔‘‘ جان محمد بلیدی نیشنل پارٹی کے رہنما بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رُکن صوبائی اسمبلی حاجی اسلم، ڈاکٹر شمع اسحاق اور یاسمین لہری نیشنل پارٹی کی تین قائمہ کمیٹیوں کے سربراہ ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں تاخیر اس لیے ہوئی کیوں کہ صوبائی اسمبلی نے سابق سپیکر جان محمد جمالی کے مستعفی ہونے کے بعد سپیکر کو منتخب کرنا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here