میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ‘ آئی ڈی پیز افغانستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے

0
4779

Photo By Matiullah Achakzaiبنوں (احسان داوڑ سے) علی خان کے قلیل سے سامان میں خیمے،ایک عالمی امدادی ادارے کے لوگو والی گڑیائیں اور بیڈ شیٹیں شامل ہیں۔ اِن دنوں میدانی علاقوں میں شدید ترین گرمی پڑ رہی ہے جہاں وہ اور ان کا خاندان آکر بسا تھاجس کے باعث ان کے لیے پیڈسٹل فین اور سولر پلیٹوں کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ 
وہ ایک بار پھر اپنے سامان کو باندھ رہے ہیں تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ براستہ کرم ایجنسی افغانستان جاسکیں۔ پسینے سے شرابور علی خان نے کہا کہ وہ اور ان کے خاندان نے بجلی کی لوڈشیڈنگ، مچھروں کی بھرمار اور میدانی علاقوں میں بڑھتی ہوئی گرمی کے باعث افغانستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ افغانستان سے سرحد کےِ اس پار کا رُخ کرنا غلطی تھی کیوں کہ وہاں پر سال بھر موسم خوشگوار رہتا ہے۔ ‘‘انہوں نے پک اَپ ٹرک میں اپنا سامان لوڈ کرنا روک دیا جو انہوں نے اپنے خاندان کو کرم ایجنسی لے جانے کے لیے کرایے پر لیا تھا جہاں سے ان کا ارادہ افغانستان جانے کا ہے۔
افغانستان اور پاکستان میں موسمی تبدیلیوں کے ساتھ ہجرت ہوتی رہی ہے‘ خاص طور پر یہ رجحان خانہ بدوش کچھی قبیلے میں عام ہے جو افغانستان کے منجمد کردینے والے موسم میں پاکستان کے میدانی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں اور جب موسمِ گرما کے دوران گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو واپس چلے جاتے ہیں۔
لیکن اب یہ رجحان بہت زیادہ عام ہوا ہے‘ افغان مہاجرین اورقبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے آئی ڈی پیز کی یہ نقل و حرکت سال بھر جاری رہتی ہے جو اپنی تکلیفوں کو کم کرنے کے لیے ایک سے دوسرے مقام کا رُخ کرتے ہیں جس میں موسم کی شدت بھی شامل ہیں۔علی خان کا خاندان بھی ان میں سے ایک ہے جنہوں نے میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث افغانستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ 
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے رضااللہ نے کہا:’’ گزشتہ برس ہم نے رمضان کے مہینے میں روزے نہیں رکھے تھے لیکن اس برس ہم رکھیں گے۔ بنوں میں روزے رکھنا ناممکن ہے جہاں سرد علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کے لیے زندگی بہ ظاہر دوزخ کے مانند ہوتی ہے۔‘‘
حکومت کے اس دعویٰ کے برعکس کہ آئی ڈی پیزکے لیے بجلی کی بندش کا دورانیہ کم کر دیا گیا ہے تاکہ توانائی کے بحران کو منتظم کیا جاسکے‘ آئی ڈی پیز 18گھنٹوں سے بھی زیادہ دورانیے کے لیے ہونے والی بجلی کی بندش کی شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دیہاتی علاقوں میں اکثر و بیش تر تین روز تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔
بنوں کے رہائشی حسام داوڑ نے کہا:’’ حتیٰ کہ شہری علاقوں کے رہائشی جو بجلی کا بل ادا کرتے ہیں‘ وہ بھی بجلی کی بندش کا سامنا کررہے ہیں جو اکثر و بیش تر طویل اوقاتِ کار کے لیے ہوتی ہے۔‘‘
نیوز لینز کو دستیاب ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی فوج کی جانب سے 15جون 2014ء کو شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن کے بعد30ہزار سے زائد خاندانوں نے افغانستان ہجرت کی ۔
شمالی وزیرستان کے اہم ترین قصبے میرانشا کی سیاسی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:’’ یہ وہ خاندان تھے جو سرحد کی قریبی تحصیلوں جیسا کہ دَتہ خیل، شوال اور غلام میں میں آباد تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بہت سے خاندان واپس آگئے کیوں کہ سرحد کے اُس پار ان کو وہ فوائد نہیں مل سکتے تھے جو اس جانب حاصل ہوتے۔
لیکن موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی بنوں میں گرمی کی شد ت اس حد تک بڑھ گئی ہے جو شوال، دَتہ خیل اور شمالی وزیرستان کے دیگر ٹھنڈے علاقوں سے تعلق رکھنے والے باسیوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرکے بنوں میں آباد ہونے والے صحافی نور بہرام نے کہا:’’ موسم کی سختی، بجلی کی طویل دورانیے کے لیے بندش، مچھروں کی بھرمار اور جاگیرداروں کا رویہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے قبائلیوں کو افغانستان منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ 10سے 12خاندان روزانہ پڑوسی ملک کا رُخ کررہے ہیں‘ خاص طور پر وہ خاندان جن کے عزیز و اقارب افغانستان میں آباد ہیں۔
ایک جانب حکومت آئی ڈی پیز کی بحالی کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری جانب وہ خاندان جو موسم کی شدت کے باعث افغانستان جاسکتے ہیں‘ وہ شمالی وزیرستان میں آباد ہونے کی بجائے پڑوسی ملک کارُخ کر رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے ایک آئی ڈی پی نے کہا کہ وہ حکومت کے دعوؤں پر کوئی یقین نہیں رکھتے اور ان کی اپنے گھروں کو واپسی میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
مذکورہ آئی ڈی پی نے سکیورٹی وجوہات کے باعث اپنا نام ظاہرنہ کرنے کی خواہش پر بتایا:’’ اس میں ممکنہ طور پر برسوں لگیں گے‘ ہوسکتا ہے کہ ایک دہائی کا عرصہ لگ جائے جیسا کہ جنوبی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والا محسود قبیلہ سات برس گزر جانے کے باوجود اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکا۔‘‘
31مارچ 2015ء کے بعد سے تقریباً دو سو خاندان شمالی وزیرستان کی تحصیل سپن وام واپس لوٹ چکے ہیں لیکن مقامی آبادی نے یہ الزام عاید کیا ہے کہِ ادھر کوئی آپریشن نہیں ہوا جس کے باعث وہ اس سے پہلے بھی واپس آسکتے تھے۔
شمالی وزیرستان کے قصبے میر علی سے تعلق رکھنے والے سپن خان نے کہا:’’ میَں حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے واپسی کے شیڈول سے اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گا جب تک فوجی آپریشن سے متاثر ہونے والوں کو واپس نہیں بھیجا جاتا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ میرعلی اور میرانشاکے باسی فوجی کارروائیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے تقریباً 17لاکھ لوگ بنوں اور لکی مروت و ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ ان تمام علاقوں میں موسمِ گرما کے دوران شدید ترین گرمی پڑتی ہے۔
میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث آئی ڈی پیز موسمِ گرما کے حوالے سے پریشان ہیں‘اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی اپنے گھروں کو واپسی کی امید دم توڑتی جارہی ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے آئی ڈی پیز کی ایک بڑی تعداد کا یہ خیال ہے کہ وہ موسم کی شدت، طویل دورانیے کے لیے بجلی کی بندش، روزگار کے مواقع نہ ہونے، مقامی جاگیرداروں کے رویے اور صحت و تعلیم کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث بہتر مقامات کا رُخ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وہ آئی ڈی پیز جو افغانستان جاسکتے ہیں‘ یہ کہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں روزگار تلاش کرسکتے ہیں کیوں کہ سرحد کے اُس پار کا موسم قابلِ برداشت ہے جس کے باعث کوئی سی بھی ملازمت کی جاسکتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here