پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف جاری کریک ڈاﺅن فیصلہ کن مرحلے میں داخل

0
4684

پشاور (اشرف الدین پیرزادہ سے) افغانستان کے صوبہ زابل سے تعلق رکھنے والے ظریف نے کوئٹہ سے پشاورتک نہ طرف سفر کیا بلکہ انہوں نے مختلف شہروں میں قیام بھی کیااور نئی شناخت کے حصول کے لیے محنت کرتے رہے تاکہ ان کے لیے پاکستان میں مزید قیام کرنا ممکن ہوسکے۔
ظریف ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں‘ یہ ان کا حقیقی نام نہیں ہے‘ وہ پاکستان میں اس وقت آئے جب افغان مہاجرین نے نوگیارہ کے بعد چوتھی بار افغانستان سے پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے پہلی بار پاکستان میں پناہ حاصل کی‘ دوسری بار وہ اس وقت ہجرت پر مجبور ہوئے جب سرُخ فوج کا ملک سے انخلا عمل میں آیا اور افغان جنگجو سرداروں کے مابین کابل پر قبضہ کرنے کے لیے جنگ کا آغاز ہوا۔ افغان شہریوں نے پاکستان کی جانب نوے کی دہائی میں اس وقت ایک بار پھر ہجرت کی جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی۔
ظریف نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں برسوں تک کوئٹہ میں قیام پذیر رہا ہوں لیکن بعدازاں اس وقت پشاور آگیا جب مجھ سے یہ کہا گیا کہ میَں یہاں سے آسانی کے ساتھ شناختی کارڈ حاصل کرسکتا ہوں۔‘‘ وہ برسوں سے ٹیکسی چلا کر اپنے خاندان کی گزر بسر ممکن بنا رہے ہیں لیکن بعدازاں انہوں نے چھاؤنی کے علاقے کی جانب جانا چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا:’’ میَں پاکستانی شناختی کارڈ حاصل نہیں کرسکتا لیکن مہاجر کے طور پر رجسٹرڈ کیے جانے کا کارڈ موجود ہے جس کے تحت دسمبر 2015ء تک پاکستان میں قیام کرسکتا ہوں۔ لیکن پولیس کی جانب سے اس وقت ہراساں کیا جاتاہے جب ہم شہر یا چھاؤنی کے علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔‘‘
آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں 148افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی جس کے بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے حکام کی افغان مہاجرین کے حوالے سے پالیسی میں شدت آئی‘ ان دونوں صوبوں میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی تھی اور اس کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی۔ 
دہشت گردی کی اس کارروائی کے فوراً بعد افغان سرحد سے متصل ان دونوں صوبوں میں غیر رجسٹرڈ غیر ملکیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا جن میں افغان شہری بھی شامل ہیں۔ سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے جیسا کہ شہروں میں مختلف مقامات ‘ قبائلی علاقوں کے داخلی و خارجی راستوں اور مختلف عوامی مقامات پر متعدد چیک پوسٹوں کا قیام عمل میں آیا تاکہ سفر ی یا رہائشی دستاویزات کی جانچ کی جاسکے۔
خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ سید شہاب علی شاہ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فروری کے مہینے کے دوران 3,940افغان شہریوں کو ڈیپورٹ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر ایجنسی میں غیر قانونی طور پر سکونت اختیار کرنے والے افغان مہاجرین کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مختلف کارروائیوں کے دوران حراست میں لیا گیا۔ سید شہاب علی شاہ کا کہنا تھا:’’ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہم غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو گرفتار نہیں کرتے جنہیں تفتیش کے بعد افغانستان واپس بھجوا دیاجاتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ ہم غیر قانونی افغان مہاجرین کو ڈیپورٹ کیے جانے کا فیصلہ کرنے سے قبل مختلف ذرائع سے ان کے متعلق تصدیق کرتے ہیں جب کہ اس وقت تک ان کے خلاف مقدمات درج کرکے ان کو حراست میں رکھا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی افغان شہری ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہو تو حکام اس سے مزید تفتیش کرتے ہیں۔
پشاور پولیس کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ا نہوں نے عام افغان مہاجرین کے علاوہ کم از کم 450ایسے پیش اماموں کو گرفتار کیا ہے جو افغان پس منظر کے حامل ہیں۔ وہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیے گئے اور حساس اداروں کی جانب سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے بعد ان کو افغانستان ڈیپورٹ کردیا گیا۔ 
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز ڈاکٹر میاں سعید کے مطابق آرمی پبلک سکول پر دہشت گرد حملے کے بعد شہر میں کیے جانے والے مختلف سرچ آپریشنوں میں نامکمل دستاویزات کے ساتھ قیام کرنے والے ہزاروں افغان مہاجرین کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا:’’صرف خیبرپختونخوا میں ہی غیر قانونی مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا بلکہ آزاد کشمیر کے شہر میرپور کی حدود سے بھی اب تک 6,333غیرقانونی افغان مہاجرین کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔‘‘
گرفتار کیے جانے والے افغان مہاجرین کو میرپور سے پشاور اور بعدازاں افغان سرحدی حکام کے حوالے کرنے کے لیے بسوں پر طورخم بارڈر منتقل کر دیا گیا۔
ڈاکٹر میاں سعید نے کہا:’’ پاکستان میں غیرقانونی طور پر آباد غیرملکی شہریوں،جن میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے، کے خلاف آپریشن خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں زور و شور سے جاری ہے۔‘‘
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس راجہ عرفان سلیم نے میڈیا کو ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ میر پور ضلع کے مختلف مقامات سے سے مجموعی طور پر 12,400افغان مہاجرین گرفتار کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے 6,500کے پاس متعلقہ دستاویزات نہیں تھیں۔ 
انہوں نے کہا کہ ضلع میں آباد مجموعی طور پر 5,900افغان مہاجرین کے پاس نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے جاری کیا جانے والا پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) موجودہے جس کے باعث وہ پاکستان میں 31دسمبر 2015ء تک قیام کرسکتے ہیں۔
پشاور کے علاقہ حیات آباد کی کارخانو مارکیٹ میں الیکٹرانک مصنوعات کا کاروبار کرنے والے ایک افغان بزنس مین نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں نے پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔
انہوں نے سکیورٹی وجوہات کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر کہا:’’ میَں 1992ء سے امپورٹ و ایکسپورٹ کا کاروبار کررہا ہوں اورمیرے پاکستان کے مختلف شہروں میں متعدد دفاترقائم ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ معاشی شعبہ میں میری خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے پاکستان کی شہریت دے۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ بہت سے افغان مہاجر ین پاکستان میں امن و امان کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں جنہیں’’ سزا دی جانی چاہئے۔‘‘
ایک سماجی کارکن شمس غنی نے کہا:’’ یہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے کیوں کہ گزشتہ 35برسوں سے تقریباً 40لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ یہ حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مختلف نسلی، لسانی و ثقافتی پس منظر کے حامل افغان مہاجرین کا کھوج لگائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں آباد افغان مہاجرین کی شناخت کرنا نہ صرف آسان ہوگا بلکہ ان کو ڈیپورٹ کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن ایسے افغان شہری جوپاکستان میں پیدا ہوئے اور انہوں نے مقامی مرد و خواتین سے شادی کی‘ ان کا کھوج لگانا مشکل ہوگا۔ 
گزشتہ چند مہینوں کے دوران افغان مہاجرین نے پشاور، بنوں اور آزاد کشمیر میں احتجاج کیا اور پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کو مزید قیام کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے شہریت دینے کا مطالبہ بھی کیا کیوں کہ ان میں سے چند ایک گزشتہ 40برسوں سے پاکستان میں آباد ہیں۔ 
سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کہا کہ سرکاری حکام نے رشوت لے کر افغان شہریوں کو ہزاروں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کیے۔ انہوں نے الزام عاید کیا کہ کرپشن کرنے والے بیش تر نادرا حکام افغان شہریوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کرنے کے عوض رشوت وصول کرکے کروڑ پتی ہوچکے ہیں۔
نادرا حکام سے جب اس بارے میں مؤقف جاننے کے لیے رابطہ قائم کیا گیا تو ایک اہل کار وہاب نے کہا کہ ان کے ادارے نے 10ہزار قومی شناختی کارڈز بلاک کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نادرا دیگر سرکاری محکموں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ ایسے افغان شہریوں کا ڈیٹابیس تیار کیا جاسکے جنہوں نے جعل سازی کے ذریعے قومی شناختی کارڈز حاصل کیے ہیں۔ 
گزشتہ دو مہینوں سے خیبرپختونخوا حکومت اور فاٹا کی انتظامیہ غیر رجسٹرڈ افغانوں اور مہاجرین سے متعلق کوائف کی تدوین کے لیے ان کو رجسٹرکرتی رہی ہے۔
افغان مہاجرین کو کرایے پر گھر دینے والے مکانات کے مالکان کو یہ ہدایات جاری کی جاچکی ہیں کہ وہ ان کے کوائف اپنے قریبی پولیس سٹیشن یا قبائلی ایجنسی کے انتظامی دفاتر میں جمع کروائیں۔
حکومت کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیاہے کہ رجسٹرڈ یا غیررجسٹرڈ افغان شہری کیمپوں تک محدود رہیں گے۔ اگرچہ اس حوالے سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جاچکا ہے لیکن عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 
خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق15لاکھ سے زائد افغان مہاجرین صوبہ میں آباد ہیں جو محدود اور بڑے پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق افغان شہری مختلف نوعیت کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جن میں محدود پیمانے پر ریاست مخالف کارروائیوں کے علاوہ دہشت گردی کیعش بڑے واقعات بھی شامل ہیں جس کی ایک مثال آرمی پبلک سکول پر ہونے والا حملہ بھی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here