پنچاب میں 86برس بعد کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے کوششوں کا آغاز

0
4778

لاہور( شہریار ورائچ سے) پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی کے حامل صوبہ پنجاب میں 86برس بعد پانچ مارچ2015ء کو کم عمری کی شادیوں پر پابندی کا ایکٹ 2015ء متعارف کروایا جاچکا ہے تاکہ بچپن میں ہونے والی شادیوں کی روایت کا تدارک کیا جاسکے۔ 
بچوں کی شادیوں پر پابندی کے ایکٹ 1929ء کے بعد یہ ایسی پہلی ترمیم ہے‘ اس سے قبل برصغیر میں برطانوی راج کے عہد میں اس حوالے سے ایک بل منظور کیا گیا تھاجس کے تحت کم عمری میں شادی کرنے کے مرتکب شخص کو ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جاتی تھی۔
صوبائی وزیرِقانون پنجاب میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم ’’بچپن بچاؤ‘‘ کے عنوان کے تحت متعارف کروائی گئی ہے۔ صوبہ میں متعارف کروائے جانے والے کم عمری کی شادیوں کے تدارک کے مذکورہ ایکٹ کے تحت بچوں کی شادی میں ملوث کسی بھی شخص کو 50ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ تک قید ہوگی۔
میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان نے کہا :’’ اس ترمیم کے تحت بچے کے سرپرست کے علاوہ نکاح خواں کو بھی اس قدر سزا ہی ملے گی۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ اس ترمیم میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ نکاح خواں کو دلہن اور اس کے والدین کی جانب سے فراہم کیے جانے والے نکاح نامے کے تمام خانوں کو پُرکرنا ہوگا۔اس قانون کے تحت یونین کونسلوں کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ کسی بھی نکاح خواں کو لائسنس جاری کرسکتے ہیں جو قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں منسوخ ہوسکتا ہے۔‘‘
سیو دی چلڈرن پروگرام کے ڈائریکٹر ارشد محمود نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ پاکستان میں بچپن بچاؤ کمپین ڈچ حکومت کے تعاون سے شروع کی گئی ہے۔ پنجاب حکومت نے پروگرام کی جانب سے پیش کی گئی تجویز کو قبول کرتے ہوئے نکاح کے لیے شناختی کارڈکا ہونا لازمی قراردے دیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا :’’ کم عمری کی شادیوں کے باعث پاکستان میں کم عمر کی دلہنوں میں موت کی شرح انتہائی بلند ہے۔ بچپن کی شادی کے نہ صرف لڑکیوں بلکہ سماج پر بھی سنجیدہ نوعیت کے مضمرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘
اقوامِ متحدہ کے ہنگامی فنڈ برائے بچگان ( یونیسف) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 18برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی شرح 24فی صد ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) ناصرہ جاوید یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ تناسب اس سے کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی:’’ پنجاب کو سندھ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر عمل کرنا چاہیے۔ سندھ اسمبلی کی جانب سے کی گئی ترمیم کے تحت کم عمری کی شادیوں کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے جس پر سرپرست اور نکاح خواں کے لیے تین برس تک قید مقرر کی گئی ہے۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی نے سندھ حکومت کی جانب سے بچوں کی شادی کے ایکٹ 1929ء میں ترمیم پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ جب بچی نو برس کی ہوجائے اور بلوغت کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو اس صورت میں وہ شادی کے قابل ہوجاتی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک آئینی حیثیت ہے اور یہ ایک سرکاری ادارہ ہے‘جو یہ مؤقف رکھتا ہے کہ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والی نئی ترمیم شریعت سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔
حافظ طاہر محمود اشرفی بھی اس نئی ترمیم سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ شریعت میں شادی کے لیے عمر کا کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ شریعت کے مطابق مرد و عورت جب بلوغت حاصل کرلیں تو وہ شادی کرسکتے ہیں اور بلوغت کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں۔‘‘ 
رکنِ قومی اسمبلی ماروی میمن اسلامی نظریاتی کونسل کے اس مؤقف سے متفق نہیں ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ پاکستان دنیا کا وہ واحد مسلمان ملک نہیں ہے جہاں پر بچپن کی شادیوں پر ممانعت کے لیے یہ ترامیم متعارف کروائی گئی ہیں۔ 15سے 18برس کی عمر میں ماں بننے سے زندگی خطرات کی زد پر آجاتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کے تمام صوبوں میں بچپن کی شادیوں کے تقریباً 80فی صد کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔‘‘
خودمحتار انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف اس نوعیت کی ترامیم کے حق میں ہیں۔انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ قانون خواتین کے بنیادی حقوق سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچپن کی شادیوں کے تشویش ناک رجحان پر قابو نہیں پایا جاسکا لیکن اس کے ساتھ ہی اب ہمارے بچوں کو ملک کے کم از کم دو صوبوں میں قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:’’ پاکستان بچوں کے حقوق اور خواتین کے خلاف روا رکھے جانے والے ہر طرح کے امتیازی سلوک کے تدارک کے کنونشن کا دستخط کنندہ ہے۔ اس نوعیت کے عالمی کنونشن کا حصہ ہونے کے باعث پاکستان یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔‘‘
پنجاب اسمبلی نے بچوں کی شادیوں کے ایکٹ کے علاوہ 11قوانین منظور کیے لیکن اس اجلاس میں اپوزیشن موجود نہیں تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنماء اس ترمیم پر خوش نہیں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء اورپنجاب اسمبلی کی رُکن فائزہ ملک نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ا س وقت صورتِ حال مختلف ہوتی جب یہ بل حزبِ اختلاف کی موجودگی میں پیش کیاجاتا۔ سندھ اس ضمن میں کی جانے والی قانون سازی میں پنجاب پر بازی لے گیا ہے کیوں کہ وہاں پر بچوں کی شادی کروانا ایک ناقابلِ تلافی جرم قرار دیا گیا ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here