کراچی: تشدد سے متاثرہ شہر میں کوئی سرکاری مردہ خانہ نہیں

0
3880

کراچی (تہمینہ قریشی سے) دو کروڑ آبادی کے کاسموپولیٹن شہر میں قائم چار ہسپتالوں میں سے کسی ایک میں بھی لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں ہے‘ یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں پر مختلف سانحوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی تعداد تقریباًایک معمول بن چکی ہے۔
ورثاء کے اپنے پیاروں کی لاش وصول کرنے کے لیے آنے تک ان کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری اس وقت ایک معروف فلاحی تنظیم ادا کر رہی ہے جس کے تحت کراچی میں ایک بہت بڑا مردہ خانہ منتظم کیا جارہا ہے۔
قائم مقام پولیس سرجن جلیل قادر نے کہا:’’ اگرچہ مختلف حادثات اور پُرتشدد واقعات کا شکار ہونے والے لوگوں کی لاشوں کو قانونی طور پر مخصوص ہسپتالوں کے میڈیکولیگل سنٹروں میں رکھنے کی ضرورت ہے لیکن ایسے کسی مقام کی عدم موجودگی کے باعث پولیس کی جانب سے حادثات یا پرتشدد واقعات میں اچانک موت کا شکار ہوجانے والوں کی لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایدھی مردہ خانے کو قانونی حیثیت دی گئی ہے جہاں پر بیک وقت اڑھائی سے تین سو لاشوں کو رکھا جاسکتا ہے۔‘‘
جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر کے شعبۂ حادثات کی نگران ڈاکٹر سیمیں جمالی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تین بڑے سرکاری ہسپتالوں میں سے کسی ایک میں بھی مردہ خانہ قائم نہیں ہے‘ حتیٰ کہ ان ہسپتالوں کے میڈیکولیگل سنٹرز مصروف ترین ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے لیے بھی سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی سہولیات استعمال کی جارہی ہیں لیکن ہم نے ایمرجنسی سیکشن میں اپنے طور پر ایک مردہ خانہ قائم کررکھاہے جہاں پر ایک یا دو لاشوں کو رکھا جاسکتا ہے۔‘‘
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ہیلتھ سروسز ڈیپارٹمنٹ کی سینئر ڈائریکٹر سلمیٰ کوثر نے کہا کہ2009ء میں عباسی شہید ہسپتال میں مردہ خانہ قائم کیا گیا تھا جو خراب ٹرانسفارمر کے باعث بند کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ صوبائی محکمۂ صحت چوں کہ میڈیکولیگل شعبے کا نگران ہے جس کے باعث مردہ خانوں کے انتظام کی ذمہ داری بھی متعلقہ محکمہ پر عاید ہوتی ہے۔ دوسری جانب میڈیکولیگل افسروں کا یہ مؤقف ہے کہ یہ ہسپتال انتظامی طور پر کراچی میونسپل کارپوریشن کی عملدراری میں آتا ہے جس کے باعث مردہ خانے میں نصب کیے گئے ٹرانسفارمر کی مرمت کی ذمہ داری بھی متعلقہ ادارے پر ہی عاید ہوتی ہے۔ 
ایک میڈیکولیگل افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسی طرح کئی برس قبل سول ہسپتال کراچی میں ایک مردہ خانہ قائم کیا گیا تھا لیکن یہ اس وقت بند کر دیا گیا جب مرنے والوں کے ورثاء کی جانب سے شعبۂ میڈیکولیگل پر حملے کے چند واقعات پیش آئے۔ ان کے مطابق ہسپتال میں لاشوں کومحفوظ رکھنے کے لیے مردہ خانے کی سہولت دستیاب ہے لیکن اس کو چلانے اور مناسب طور پر منتظم کرنے کی ضرورت ہے۔
رواں برس جنوری کے پہلے ہفتے میں ایک مسافر بس اور آئل کنٹینر میں تصادم کے بعد بھڑکنے والی آگ میں 64افراد جھلس گئے تھے۔ ان لاشوں کا پوسٹ مارٹم جناح ہسپتال میں کیا گیا جہاں پرلاشوں کو کھلے آسمان تلے رکھا گیا۔ ڈاکٹر سیمیں جمالی نے کہا:’’ حتیٰ کہ زمین پر بھی ہر جانب لاشیں رکھی گئی تھیں۔‘‘
اگرچہ مختلف فلاحی اداروں کے زیرِانتظام بھی مردہ خانے قائم ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی پولیس کی جانب سے تفتیش سے قبل لاشوں کو رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ایک رُکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرنیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کی فلاحی تنظیم خدمتِ خلق فاؤنڈیشن کے تحت ملیر، ارونگی اور نارتھ کراچی کے علاقوں میں تین مردہ خانے قائم ہیں جہاں 20سے 25لاشے رکھنے کی گنجائش ہے۔ مذکورہ تنظیم کی جانب سے لانڈھی، رنچھوڑ لائنز اور جہانگیر روڈ پر مزید تین مردہ خانے قائم کیے جارہے ہیں۔
مجلسِ وحدت المسلمین سے منسلک علی احمر نے کہا کہ امام بارگاہوں جیسا کہ نارتھ ناظم آباد کے فاطمیہ کمیونٹی سنٹر، شاہِ کربلا امام بارگاہ اور ملیر کے جعفرِطیار امام بارگاہ میں بھی لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مردہ خانے قائم کیے گئے ہیں۔
سکیورٹی خدشات
پولیس سرجن ڈاکٹر جلیل قادر نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے میڈیکولیگل افسروں، جن سے حساس معاملات میں موت کی پوشیدہ وجوہات کے بارے میں استفسار کیا جاتا ہے،کو اکثر و بیش ترنہ صرف نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ دھمکایا بھی جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے مردہ خانوں میں مناسب آلات دستیاب نہیں ہیں جب کہ میڈیکولیگل افسر بھی مردہ خانوں میں لاشوں کو محفوظ رکھ کے اپنی زندگیوں کو خطرات میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ انہوں نے کہا:’’ محکمۂ صحت فرنیچر کی خریداری کے لیے مناسب فنڈز جاری نہیں کررہاجب کہ سکیورٹی کی فراہمی کی باری تو اگلے مرحلے میں آتی ہے۔‘‘
دوسری جانب مرنے والوں کے مشتعل ورثا اکثر و بیش تر مردہ خانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پتھراؤ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ ان حالات میں مردہ خانوں کو منتظم کرنا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ محفوظ ہے کہ ہم مردہ خانوں کو منتظم نہ کریں۔‘‘
جناح ہسپتال سے منسلک ایک میڈیکولیگل افسر ڈاکٹر منظور میمن کو گزشتہ برس ان کے گھر کے قریب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔انہوں نے اپنی موت سے قبل دیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا تھاکہ ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے ان کا تعاقب کیا جاتا رہا ہے کیوں کہ انہوں نے ایک سیاسی کارکن کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔
فروری میں جناح ہسپتال سے منسلک ایک اور میڈیکولیگل افسر ڈاکٹر شہزاد بٹ نے پریس کانفرنس کی اور یہ انکشاف کیا کہ ان کو ان کے گھر سے اغواکرنے کے بعد مجبور کیا گیا کہ وہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے جرائم پیشہ گروہ کے ایک رُکن کی لاش کے پوسٹ مارٹم کا ریکارڈ تلف کردیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here