آئی ڈی پیز باڑہ واپسی کے حوالے سے تذبذب کا شکار

0
3622

باڑہ، خیبرایجنسی ( اشرف الدین سے) جب جان گل سے یہ استفسار کیا گیا کہ و ہ اپنے گھر واپس کیوں کرلوٹ نہیں جاتے تو ان کا جواب سادہ اور واضح تھا۔ 
خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے 56برس کے آئی ڈی پی نے کہا:’’یہاں پر زندہ رہنا باڑہ میں موت کو گلے لگانے سے بہتر ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا:’’گزشتہ 10برسوں کے دوران ایجنسی میں عسکریت پسندی اور عسکریت پسندی سے متعلقہ واقعات میں تقریباً چار ہزار قبائلی مارے جاچکے ہیں۔‘‘
اگرچہ پاکستانی فوج او رحکومت نے مارچ کے وسط میں آئی ڈی پیز کی واپسی کے منصوبے کو حتمی شکل دی تھی لیکن گزشتہ ایک دہائی سے جلوزئی کیمپ میں مقیم آئی ڈی پیز واپسی کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔
کیمپ میں آئی ڈی پیز کی زندگی مشکلات کا شکار ہے لیکن وہ مناسب رہایش، صحت، خوراک، سکیورٹی اور بچوں کے لیے تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کے بغیر واپس نہیں جانا چاہتے جو کبھی ان کو ان کے علاقے میں حاصل تھیں۔ پشاور کے مضافات میں قائم جلوزئی کیمپ میں آباد خیبرایجنسی کی تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے آئی ڈی پیز کی بڑی تعداد عدم تحفظ اور تباہ حال انفراسٹرکچر کے باعث واپس جانے پر تیار نہیں۔
اکاخیل کے رہایشی اور جلوزئی کیمپ میں معززین کی کونسل کے رُکن جان گل آفریدی نے کہا کہ باڑہ کے بیش تر علاقوں میں امن قائم ہوسکا ہے اور نہ ہی شہری سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا:’’ ہم کس طرح واپس جاسکتے ہیں جب تمام تر انفراسٹرکچر ہنوز تباہ حالی کا شکار ہے۔ عسکریت پسندی سے متاثرہ قصبے میں سکول، صحت کے مراکز اور اہم شاہراؤں کو ازسرِنوتعمیر کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کی مرمت کی گئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز اس وقت واپس جائیں گے جب باڑہ میں امن و امان قائم ہوجائے گا۔ 
گل جان آفریدی نے کہا کہ علاقے میں سرگرم عسکریت پسند گروہوں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے باڑہ کے باسی سکیورٹی گارڈز نہیں رکھ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز کی یہ خواہش ہے کہ سکیورٹی فورسز ایسے گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں۔
خیبرپختونخوا کے گورنر سردار مہتاب احمد خان حالیہ دنوں کے دوران باڑہ سے تعلق رکھنے والے آئی ڈی پیزکی واپسی کے حکومتی منصوبے کے بارے میں بارہا تذکرہ کرچکے ہیں۔
34برس کے عادل میران نے کہا:’’ ہم کس طرح واپس جاسکتے ہیں جب لوگوں کی اکثریت کے گھر تباہ ہوچکے ہیں؟ ہمارے گھر یا تو عسکریت پسندوں نے تباہ کیے ہیں یا وہ فوج کی جانب سے کی جانے والی فضائی بمباری اور شیلنگ سے منہدم ہوئے ہیں۔‘‘
عادل میران بھی اکاخیل سے تعلق رکھتے ہیں‘ و ہ کہتے ہیں کہ آئی ڈی پیز مستقل طور پر خوف کی فضا میں رہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز ان کے علاقے میں ہنوزکارروائیاں کر رہی ہیں اور حکومتی دفاتر بند پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ میں بارہا نافذ کیے جانے والے کرفیو اور لاتعداد سکیورٹی چیک پوسٹوں پر آئی ڈی پیز کی تلاشی ان کی باڑہ واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
عادل میران نے کہا:’’ سکیورٹی فورسز کو یہ احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو دیکھتے ہی گولی مار دیں ‘ وہ عسکریت پسندوں اور ایک پُرامن شہری کے درمیان فرق روا نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ہی کرفیو نافذ کرنے سے قبل خبردار نہیں کیا جاتا۔‘‘
جلوزئی کیمپ میں رہنے والے علی اکبر اکاخیل کہتے ہیں کہ حکام کو گھروں اور شہری تعمیرات کی مرمت اوران کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے’’بڑے پیمانے پر سرمایہ اور ظاہر ہے کہ وقت‘‘ درکارہوگا۔ 
انہوں نے کہا کہ وہ باڑہ واپس جانے کا فیصلہ کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کریں گے تاوقتیکہ واپسی کے لیے حالات سازگار نہیں ہوجاتے۔
سیاسی کارکن بازار گل آفریدی نے کہا کہ یہ دعویٰ حقیقت کے قریب تر نہیں کہ باڑہ کو سماج دشمن عناصر سے پاک کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا:’’ ٹوٹ پھوٹ کے شکار مکانات، صحت اور تعلیم کی سہولیات کے فقدان، بجلی کی معطلی اور پانی کی کمی کے علاوہ کاروباری مواقع نہ ہونے اور بے روزگاری کے باعث آئی ڈی پیز واپس نہیں جانا چاہتے۔‘‘
انہوں نے استفسار کیا کہ حکومت کیوں کر باڑہ کے آئی ڈی پیز کی واپسی کے لیے جلد بازی کر رہی ہے جب کہ سیاسی انتظامیہ نے ہنوز ان علاقوں میں اپنی رٹ اور نہ ہی دفاتر قائم کیے ہیں؟
باڑہ کے شالوبارقبیلے سے تعلق رکھنے والے رحمان شاہ نے حکومت کی جانب سے باڑہ میں امن و امان قائم کرنے کی یقین دہانی پر اعتماد کا اظہار کیا لیکن انہوں نے کہا کہ واپسی کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔
اپنے خاندان کے چھ ارکان کے ساتھ خیمے میں رہایش پذیررحمان شاہ نے کہا کہ باڑہ کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز ہنوز سرچ آپریشن کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ کس طرح واپس جاسکتے ہیں جب منگل باغ کی تنظیم لشکرِ اسلامی نے ایک بار پھرباڑہ واپسی کی جرأت کرنے والے آئی ڈی پیز کو خبردارکیاہے ۔
انہوں نے کہا:’’ خیموں میں رہتے ہوئے موسموں کی شدت کوبرداشت کرناآسان نہیں۔ ہم اپنے گھروں کوواپس جانا چاہتے ہیں لیکن عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے دھمکیوں اور مستقل طور پر جاری فوجی آپریشنوں کے باعث ایسا ممکن نہیں۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ باڑہ کا ایک بڑا حصہ وادئ تیراہ کے کچھ علاقوں کے علاوہ کامیاب فوجی آپریشن کے بعد عسکریت پسندوں سے خالی کروایا جاچکا ہے۔
شالوبار سے تعلق رکھنے والے ایک آئی ڈی پی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ باڑہ میں سکیورٹی کے حالات اور عسکریت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے باعث خوف اور اندیشوں نے سراٹھایا ہے۔ وہ (عسکریت پسند) مقامی آبادی کو ہراساں کرتے ہیں جب کہ ان کے ایجنٹ جلوزئی کیمپ میں آباد آئی ڈی پیز کو دھمکیاں دیتے ہیں۔
باڑہ سے تعلق رکھنے والے 60برس کے ایک آئی ڈی پی حاجی نور محمد نے کہا: ’’دن کے کسی بھی پہرعسکریت پسندوں کے خوف اور دہشت کے بغیر کھیتوں کا رُخ کرنا ‘سخت محنت کرنے کے بعد دوپہر کے وقت گھنے سایہ دار درخت تلے قیلولہ کرنااور پھر مسجد سے بلند ہوتی ہوئی اذان کی آواز پربیدار ہونااب صرف یادوں کے اوراق پر محفوظ ہے جو میرے لیے انتہائی اہم ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ سب سے اہم یہ ہے کہ حکومت آئی ڈی پیز کی املاک کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے ان کی معاونت کرے۔
حاجی نور محمد نے کہا:’’حکومت اور امدادی اداروں کو سیاسی انتظامیہ کی اجازت اور قبائلی معززین کی سفارشات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے لوگوں کی نجی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا چاہیے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ نجی املاک کو ہونے والے نصف سے زائد نقصانات کی خبریں میڈیا پر نہیں آئیں کیوں کہ لوگ بڑی حد تک اس طریقۂ کار سے آگاہ نہیں تھے کہ کس طرح مالی امداد حاصل کی جاسکتی ہے۔
نور محمد نے کہا کہ لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ باڑہ میں اپنے دیہاتوں اور قصبوں میں بنیادی شہری سہولیات کے بغیر دوبارہ آباد ہو سکیں۔
56برس کی سلمیٰ بی بی نے جلوزئی کیمپ میں مناسب تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خیمے کے قریب ہی قائم ایک خیمہ سکول میں بچوں کو بھیجتی ہیں لیکن اساتذہ غیر حاضرہوتے ہیں۔
سلمیٰ بی بی نے کہا:’’ تعلیم کا کوئی مناسب انتظام نہیں‘ بچے اب محنت مزدوری کر رہے ہیں یا اپنے خاندانوں کے لیے قریبی جنگلات سے جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کیمپ میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے لیکن وہ اب بھی واپس جانے کے لیے تیار نہیں تاوقتیکہ ان کو یہ یقین نہیں ہوجاتا کہ ان کے علاقوں میں بنیادی سہولیات اور سکیورٹی فراہم کردی گئی ہے جب کہ حکومت کی جانب سے آئی ڈی پیز کے لیے اعلان کردہ معاونتی پیکیج نہیں مل جاتا۔
خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ سید شہاب علی شاہ ایجنسی میں آئی ڈی پیز کی بحالی کے منصوبوں کی نگرانی کررہے ہیں‘ انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکام نہ صرف اپنی تیاری مکمل کرچکے ہیں بلکہ آئی ڈی پیز کی باڑہ واپسی کے لیے ناگزیر اقدامات بھی کیے جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ باڑہ میں آئی ڈی پیز کی واپسی سے قبل سکیورٹی کی ذمہ داری خیبر لیویز کو سونپ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی انتظامیہ نے باڑہ کے بہت سے علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور جلوزئی کیمپ سے آئی ڈی پیز کو واپس بھجوانے سے قبل بحالی کی سرگرمیاں شروع کر دی گئی ہیں۔
سید شہاب علی شاہ نے کہا کہ سیاسی انتظامیہ خیبرپختونخوا کے حکام کی جانب سے آنے والے دنوں میں آئی ڈی پیز کی واپسی کے لیے متوقع رسمی اعلان کی منتظر ہے، تاہم انہوں نے آئی ڈی پیز کی واپسی کے حوالے سے کسی مخصوص تاریخ کے بارے میں نہیں بتایا اور صرف یہ اشارہ دیا کہ مارچ کے وسط میں آئی ڈی پیز کی بحالی کا عمل شروع ہوجائے گا۔
پولیٹیکل ایجنٹ نے کہا کہ خیبر لیویز فورس جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوگی اور ان کو پولیس اور دوسری سکیورٹی فورسز کی طرح تمام مراعات فراہم کی جائیں گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here