خیبرپختونخوا میں موبائل کورٹس قانونی پیچیدگیوں کے باعث کام شروع نہ کرسکے

0
4282

: Photo By News Lens Pakistan / Izharullah

پشاور (اظہارا للہ سے) عوام کوان کی دہلیز پرانصاف کی فراہمی کا عمل مزید جاری نہیں رہا۔ یا خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے موبائل کورٹس کے معاملے میں کم از کم ایسا ضرور ہوا ہے ‘ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں موبائل کورٹس کا نظام پہلی بار متعارف کروایا گیا تھا لیکن اسے جاری رکھنے کی صورت میں عدالتی ڈھانچہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
2013ء میں عوام کی جانب سے پذیرائی حاصل کرنے والے موبائل کورٹس کی تشکیل عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت عمل میں لائی۔ یہ صوبہ دہشت گردی اور شورش سے متاثر ہے۔ ان موبائل کورٹس کی تشکیل کا مقصد عدالتی عمل میں ہونے والی تاخیر اور مختلف مسائل کا سدِباب کرتے ہوئے عوامی تنازعات عوام کی دہلیز پر حل کرنا مقصود تھا تاکہ پہلے سے موجود عدالتوں کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔
ڈیڑھ کروڑ روپے کے فنڈ سے شروع کیے گئے اس منصوبے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یواین ڈی پی) اور خیبرپختونخوا حکومت نے مالی معاونت فراہم کی تھی۔موبائل عدالتیں بنانے کا تصوربنیادی طور پر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے برسرِاقتدار آنے سے قبل عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی )کی اتحادی حکومت نے پیش کیا تھا۔
افتتاح کے اولین روز موبائل کورٹس خصوصی بسوں میں قائم کی گئیں جن میں ایک عام کمرۂ عدالت کی تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں جہاں ایک روز میں تقریباً30مقدمات پیش کیے گئے۔ عوام کی جانب سے ان عدالتوں کا خیرمقدم کیا گیا جو کہ روایتی عدالتی نظام میں تاخیر سے تنگ آچکے تھے۔موبائل عدالتوں میں پیش کیا گیا اولین مقدمہ پشاور کے علاقے حیات آباد میں زمین کے تنازعے کا تھا۔ 
تاہم موبائل کورٹس کو منتظم کرنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جیسا کہ اس کی تشکیل کے حوالے سے بل صوبائی اسمبلی کی جانب سے رَد کر دیا گیاتھا۔
2012ء میں اے این پی کے سابق دورِ حکومت میں موبائل کورٹس کو قانونی حیثیت دینے کے لیے دو مسودے جن میں فوجداری موبائل کورٹس ایکٹ 2012ء اور دیوانی موبائل کورٹس ایکٹ 2012منظوری کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیے گئے تھے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا کو ہنوز اس جانب پیش قدمی کرنی ہے۔
پشاور بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر مولانا شمس الحق نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مظہر عالم کی عدم دلچسپی کے باعث موبائل کورٹس کی سرگرمیاں جاری نہیں رہ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے لیے آٹھ ججوں اور 18وکیلوں کو تربیت فراہم کی گئی تھی۔ان سب نے رضاکارانہ طور پر عوام کو خدمات کی فراہمی کے لیے کام کیا۔ وہ اور ایسے تمام لوگ جنہوں نے اس منصوبے پر کام کیا‘ ان کو فرینڈز آف موبائل کورٹس کا نام دیا گیا۔ 
یہ منصوبہ چوں کہ بڑے پیمانے پر رضاکاروں کے ذریعے چلایاجارہا تھا جس کے باعث فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ 
مولانا شمس الحق نے کہا:’’ اس منصوبے کے لیے فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں کیوں کہ اس منصوبے پر کام کرنے والے وکلا ٹرانسپورٹ کے اخراجات ، ڈیلی الاؤنس یا کوئی تنخواہ نہیں لے رہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ موبائل عدالتوں نے چار علاقوں کے دورے کیے جن میں نوشہرہ، داؤدزئی، پشاور میں حیات آباد اور ایک یونٹ پشاور ہائیکورٹ کے نواح میں کام کرتا رہا اور 2014ء کے دوران ایک سو سے زائد مقدمات سماعت کے لیے پیش کیے گئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے بعد موبائل کورٹس کا کام عملاً رک گیا ہے۔
موبائل عدالتوں کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے والے وکیل قاضی اشرف نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان عدالتوں کو عوام کی جانب سے غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی ہے کیوں کہ ان کے طویل عرصہ سے چل رہے تنازعات گھنٹوں میں حل ہوگئے۔ انہوں نے کہا:’’ عوام نے موبائل عدالتوں کی زبردست ستائش کی۔‘‘
قاضی اشرف نے مزید کہا:’’ موبائل کورٹس کو قانون کے دھارے میں لانے کے لیے بل صوبائی اسمبلی میں پیش کیاجاچکا ہے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔میں نہیں جانتا کہ حکومت اس منصوبے پر کیوں کر کام نہیں کررہی۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ موبائل کورٹس کو ’’کیمپ کورٹس‘‘ کہا جاتا ہے اورعدالتی نظام میں ان کی ایک قانونی اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا:’’ یہ عدالتیں برقت اور برق رفتاری کے ساتھ فیصلے سنا کر عوام کو انصاف فراہم کرتی ہیں۔‘‘
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی عارف یوسف اورخیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے قانونی مشیر عارف یوسف نے پانچ ماہ قبل موبائل کورٹس کی قانون سازی سے متعلق بلوں کا مسودہ تجاویز کے لیے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو ارسال کیا تھا۔ 
انہوں نے کہا:’’ موبائل عدالتوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے مناسب قانون سازی کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن ہم ہائیکورٹ کے ردِعمل اور تجاویز کا انتظار کر رہے ہیں کیوں کہ وہ موبائل کورٹ پراجیکٹ میں فریق کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی فنڈنگ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ اس کے لیے یواین ڈی پی کی مالی معاونت حاصل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here