وفاقی دارالحکومت میں گیس کی قلت کے باعث شہریوں کی مشکلات میں اضافہ

0
3970

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

اسلام آباد ( قمر زمان سے) پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سردی کی شدید لہر شروع ہوچکی ہے، محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
یہ ایک سرد رات ہے اورنصف شب کے وقت ثانیہ احمد اگلے روز کے لیے کھانا بنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔
ثانیہ مارگلہ ٹاؤن کی رہائشی ہیں۔ یہ کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اتھارٹی(سی ڈی اے) کے زیرِانتظام رہائشی آبادی ہے جہاں پر کھانا پکانے اور کمروں کو گرم رکھنے کے لیے نصف شب کو صرف دو گھنٹے ہی قدرتی گیس فراہم کی جاتی ہے جس کے باعث 34برس کی ثانیہ یہ معمول اختیار کرنے پر مجبور ہوئی ہیں‘ وہ دو بچوں کی ماں ہیں۔
انہوں نے موسمِ سرما میں گیس اور موسمِ گرما میں بجلی کے تعطل پر رائے دیتے ہوئے کہا:’’ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہم 21ویں صدی میں پتھر کے زمانے میں رہنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم مایع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کے سیلنڈر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے جس کے باعث نصف شب کے وقت کھانا بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ رات کے وقت موسم شدید سرد ہوتا ہے لیکن گیس کی دو گھنٹوں کے لیے فراہمی صرف کھانا پکانے کے لیے ہی استعمال ہوسکتی ہے اور اس سے گھر کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹر نہیں جلائے جاسکتے۔
مزید برآں انہوں نے یہ شکایت کی کہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے باوجود صارفین کو گیس کے بھاری بھرکم بل بھیج رہی ہے۔ 
لیکن گیس کی قلت سے صرف گھریلو صارفین ہی متاثر نہیں ہور ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں سی این جی استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس موسمِ سرما میں یہ شعبہ بدترین طور پر متاثر ہوا ہے۔
راولپنڈی کے رہایشی 43برس کے محمد یٰسین ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں اور یہ کوشش کر تے رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان حالات سے نمٹ سکیں لیکن کم قیمت ایندھن کی کمیابی کے باعث اب ان کے لیے ان حالات کا سامنا کرنا نسبتاً مشکل ہوگیا ہے۔
اگرچہ حکومت نے عالمی مارکیٹ کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کی ہے لیکن محمد یٰسین اس کے باوجود خوش نہیں ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں نے وہیکل سسٹم کی مرمت کروانا تھی کیوں کہ سی این جی کے استعمال کے باعث یہ زیادہ پٹرول کھاتی ہے۔ اس پر میرے اخراجات اٹھنے ہیں جو میں نے بارشوں کے دنوں کے لیے بچا کر رکھے ہوئے تھے۔‘‘
محمد یٰسین نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پٹرول استعمال کیا جائے تو منافع کی شرح گھٹ جاتی ہے۔ 
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کوگاڑیوں کی طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا جن میں سے بیش تر ٹیکسیاں ہوتیں جنہیں اپنے سی این جی سیلنڈر بھروانا ہوتے تھے لیکن اس کوفت کے باوجود سی این جی کی دستیابی قابلِ قبول تھی۔ لیکن اب سی این جی کی فراہمی روک دی گئی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں 20لاکھ کاروں میں سی این جی سیلنڈر نصب ہیں۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے سابق صدر غیاث پراچہ نے کہا:’’ ہماری اربوں روپے کی سرمایہ کاری ضایع ہورہی ہے۔‘‘
انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہزاروں لوگ فیول سٹیشنوں پر کام کر رہے ہیں لیکن اس موسمِ سرما کے دوران سی این جی سٹیشن بند ہونے کے باعث وہ بے روزگار ہوگئے ہیں۔
ماضی میں پاکستان میں گیس کی کبھی قلت نہیں رہی۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہمارا یہ خیال تھا کہ قدرتی گیس کے ذخائر کبھی ختم نہیں ہوں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کچھ تحقیقات کے مطابق اگر اگلے 16,17برس میں گیس کے نئے ذخائر دریافت نہیں کیے جاتے تو پاکستان میں گیس کے مزید ذخائر موجود نہیں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ غلط منصوبہ بندی اور ذخائر کے غیر ضروری استعمال کے باعث ہم اس صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اپنی دلیل کی مزید توثیق کے لیے عابد سلہری نے انڈیا کی مثال دی اور کہا کہ انڈیا میں گیس پائپوں کے ذریعے (گھروں کے لیے) فراہم نہیں کی جاتی۔
انڈیا قدرتی گیس کا استعمال توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال میں لاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ نہ صرف گھروں میں استعمال کی جاتی ہے بلکہ توانائی کی پیداوار، صنعتوں اور ٹرانسپورٹ میں بھی اس کا استعمال عمل میں لایا جارہا ہے۔
انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم صرف گیس کا ہی اندھا دھند استعمال ہی نہیں کررہے بلکہ توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش کو بھی نظرانداز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا:’’ دنیا اب حیاتیاتی ایندھن کے استعمال کی جانب بڑھی ہے لیکن ہم نے حیاتیاتی گیس کا استعمال سّتر کی دہائی میں شروع کر دیا تھا۔‘‘
ان سے جب حکومت کی سی این جی کے حوالے سے پالیسی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ابتدا میں سی این جی کو آلودگی سے پاک اور توانائی کے سستے ذریعے کے طور پر فروغ دیا گیا لیکن بعدازاں اس کی فراہمی روک دی گئی۔ انہوں نے مزید کہا:’’ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ حکومت کی پالیسی اس حوالے سے ابہام کا شکار ہے۔‘‘
ان کا یہ خیال تھا کہ مسلم لیگ نواز کی پاکستان میں برسرِاقتدار حکومت نے ’’توانائی‘‘ کو اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک نعرے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ توانائی کے بحران کے شکار ملک میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نہ صرف بلند بانگ دعوے کیے گئے بلکہ بہت سے وعدے بھی ہوئے تاہم ان وعدوں کو عملی شکل دینے کے لیے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔
ملک میں توانائی کے شعبے کے ماہر ظفرا قبال بھٹہ نے کہا:’’ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے حکومت کو وقت ضایع نہیں کرنا چاہیے لیکن وہ اس حوالے سے اس وقت تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاسکتے جب تک ایران سے پابندیاں نہیں اٹھا لی جاتیں۔‘‘
انہوں نے یہ نشان دہی کی کہ صارفین کی تعداد میں اضافے، چوری، نئی دریافتوں کے نہ ہونے اور ملک کے کچھ حصوں میں امن وامان کی صورتِ حال خراب ہونے کے باعث یہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق ہر برس چار لاکھ نئے گھریلو صارفین اس نظام کا حصہ بن رہے ہیں جب کہ قدرتی گیس کا کوئی نیا ذخیرہ دریافت نہیں ہوا۔ چند برس قبل تک یہ تعداد دو لاکھ تھی لیکن پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے ووٹ حاصل کرنے کی امید پر ان قواعد میں تبدیلی کی۔
وزیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت نے صنعتی شعبوں اور سی این جی کے لیے گیس فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ گھریلو صارفین کو گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔
حکومت ایل این جی کی درآمد پر غور کر رہی ہے تاکہ طلب و رسد میں توازن قائم کیا جاسکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے سیکرٹری عابد سعید نے 14نومبر کو پارلیمانی پینل کے روبرو کہا تھا کہ حکومت اگلے دو برسوں کے دوران دو ملین کیوبک فٹ ایل این جی روزانہ درآمد کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔
شاہد خاقان عباسی نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا:’’ حکومت قطر یا کسی بھی دوسرے ملک سے سستے داموں ایل این جی درآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here