ڈی آئی خان میں نقل مکانی کرنے والے قبائلی مقامی طرزِ زندگی اختیار کرنے لگے

0
5068

ڈی آئی خان (فاروق محسود سے) عالم شیر محسود نے 2009ء میں ڈی آئی خان کا رخ کیا۔وہ محسود قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ساری زندگی پڑوسی قبائلی ایجنسی جنوبی وزیرستان میں رہے ہیں۔ 
عالم شیران 80ہزار خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے عسکریت پسندوں کے خلاف پانچ برس سے جاری فوجی آپریشن کے باعث نقل مکانی کی تھی‘ وہ اور ان کا خاندان نئے شہر کی بود و باش اختیار کرچکا ہے جو کہ جنوبی وزیرستان سے زیادہ مختلف نہیں ہے جہاں قبائلی دیہاتی کمیونٹی کی صورت میں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔
اگرچہ یہ ایک آئی ڈی پی کے لیے مشکل ہے جو اپنی سرزمین پر واپس جانے کے خواہاں ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس شہر میں رہنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں جو کہ پاکستان کے تین صوبوں اوروفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں یا فاٹا کے سنگم پر ہے۔ڈی آئی خان میں مختلف لسانی گروہ آبادہیں جن میں سرائیکی، پشتون، پنجابی اور بلوچی وغیرہ شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں :’’ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں جنوبی وزیرستان میں ہی رہ رہا ہوں کیوں کہ شہر میں ہر جانب پشتو بولنے والے مل جاتے ہیں۔‘‘ وہ پشتو کے علاوہ کوئی دوسری زبان مشکل سے ہی سمجھ پاتے ہیں۔ عالم شیر کہتے ہیں:’’ حتیٰ کہ شہر کی سرائیکی آبادی بھی پشتو سے واقفیت رکھتی ہے۔‘‘
اس سے قطأ نظر کہ یہ ایک مرکزی ضلع ہے جو وزیرستان کے جنوبی حصے سے متصل ہے‘ ڈی آئی خان جغرافیائی اعتبار سے ملک کے چار میں سے تین صوبوں سے متصل ہے جس کے باعث یہ ایک ایسا شہر ہے جو لسانی اور ثقافتی اعتبار سے متنوع ہے۔
اکتوبر 2010ء میں 80ہزار محسود خاندانوں نے اس شہر میں نقل مکانی کی‘ جنوبی وزیرستان میں محسود قبیلہ اکثریت میں ہے۔ڈی آئی خان صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے بعد صوبے کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں مختلف ثقافتی و لسانی گروہ آباد ہیں جن کا روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے رابطہ ہوتا ہے۔
نقل مکانی کرنے والے بیش تر خاندان اب ڈی آئی خان اور ٹانک میں سکونت اختیار کرچکے ہیں جو کہ خیبر پختونخوا کا ایک اور ضلع ہے جس کی سرحد جنوبی وزیرستان سے متصل ہے۔ 
جون 2014ء میں ہونے والے آپریشن ضربِ عضب کے بعد چھ ہزار خاندانوں نے شمالی وزیرستان سے ڈی آئی خان نقل مکانی کی۔ وہ آئی ڈی پیز کے طور پرڈی آئی خان کی مقامی حکومت کے پاس رجسٹر ڈ ہیں۔ 
ڈی آئی خان کی مقامی آبادی یہ محسوس کرتی ہے کہ شمالی و جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے داوڑ،وزیر و محسود قبائلی شہر میں اپنے ساتھ مختلف طرز کی قبائلی ثقافت لے کر آئے ہیں جس سے مقامی ثقافت میں مزید تنوع آیا ہے۔ 
اگرچہ پانچ برس کا عرصہ کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن متنوع ثقافتوں کے ایک دوسرے کے اثرات قبول کرنے کے عمل کو مختلف سطحوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ گومل یونیوسٹی ڈی آئی خان کے شعبہ ابلاغِ عامہ سے منسلک سماجیات کے استاد ذیشان قاسم کہتے یں: ’’مذکورہ تمام ثقافتی گروہوں کا زندگی گزارنے کا انداز ایک دوسرے سے مختلف ہے جس کے باعث ڈی آئی خان ایک ایسا ثقافتی مرکز بن گیا ہے جوپورے ملک میں کوئی دوسرا نہیں ہے۔‘‘
1998ء میں ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق ڈی آئی خان کی آبادی 8,53,000ہزار ہے جس میں اوسطاً 3.26فی صد اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے بعد سے کوئی مردم شماری نہیں ہوئی لیکن آبادی میں اضافے کی3.26فی صد شرح کو مدِنظر رکھتے ہوئے جو اندازے مرتب کیے گئے ہیں‘ ان کے مطابق 17برس بعد اب ضلع کی آبادی تقریباً12لاکھ ہے۔ 
یہ آبادی مخلوط لسانی و ثقافتی گروہوں پر مشتمل ہے جن میں بلوچ، سید، پنجابی، راجپوت اور پشتون شامل ہیں جب کہ اردو بولنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد بھی شہر میں آبادہے لیکن مقامی لوگوں کی مادری زبان سرائیکی ہے۔
وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی اکثریت مقامی زبان سرائیکی یا بڑے پیمانے پر بولی اور سمجھی جانے والی اردو زبان سے واقفیت نہیں رکھتی۔ 
عالم شیر محسود نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ایک آئی ڈی پی کی حیثیت سے رہائش اور خوراک تک رسائی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ ہم اردو یا سرائیکی زبان میں بات نہیں کرسکتے تھے۔‘‘ شیرعالم اب آئی ڈی پی کے طور پر ڈیرہ اسماعیل خان کے قصوریہ ٹاؤن میں رہتے ہیں اور وہ کبھی سکول نہیں گئے۔ 
نقل مکانی کرنے کے بعد قبائلیوں کی اکثریت کو اپنی بقاء کے لیے سرائیکی و اردو سے واقفیت حاصل کرنا تھی اور ایک ایسے تہذیبی ماحول سے خود کو ہم آہنگ کرنا تھا جو ان کے تمدن سے مختلف تھا۔ 
اسی طرح بہت سے سرائیکی لوگوں نے بھی قبائلی روایات کاانتخاب کیا ہے۔ وہ پشتونوں کے روایتی رقص اتن، پشتون موسیقی، لباس اور کھانوں کے بارے میں آگاہ ہو گئے ہیں۔
ڈی آئی خان میں موسیقی کی دکانوں پر وزیرستانی موسیقاروں کی سی ڈیز ریلیز کی گئی ہیں جنہوں نے سرائیکی میں بھی گیت گائے ہیں۔مرحوم کمال محسود سرائیکی میں بھی گیت گاتے تھے اور ڈی آئی خان میں خاصے مقبول تھے جب کہ مقامی سرائیکی گلوکاروں نے پشتو میں بہت سے گیت گائے ہیں جن میں رضوان حیدر، امجد نواز، شہزاد رستم، باسط نعیمی وغیرہ شامل ہیں۔ 
ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن فاروق عادل نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ قبائلیوں کی نقل مکانی کے بعد مقامی آبادی کا ان کے حوالے سے نقطۂ نظر تبدیل ہوا ہے۔ مقامی آبادی قبل ازیں یہ خیال کرتی تھی کہ وہ غیرمہذب ہیں ‘ یہ وہ تاثر ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان و حتیٰ کہ مغرب میں کتابوں و میڈیا کے باعث فروغ پذیر ہے ۔ اس تاثر کا حقیقت سے مزید کوئی تعلق نہیں رہ سکتا۔ قبائلی مہمان نواز اور دوستانہ مزاج کے حامل ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ بہت سے مقامی لوگوں نے ایسے خاندانوں میں شادی کر رکھی ہے جو کہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی بہت سی خواتین کبھی سکول نہیں گئیں لیکن ڈی آئی خان میں نقل مکانی کرنے کے بعد انہوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ہے۔ دوسری جانب وزیرستان کی خواتین جو گھروں میں مقید رہتی تھیں ‘ اب چہرے کو نقاب سے ڈھانپتی ہیں۔ فاروق عادل کے مطابق پردے کی یہ ثقافت مقامی خواتین بھی اختیار کر رہی ہیں۔ 
ایک قبائلی معزز نور محمد محسود نے کہا کہ مقامی تہذیبوں اور شناختوں کو عالمگیریت سے خطرات لاحق ہیں جسے مغربی ممالک فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ ہماری ثقافت اور نوجوان نسل غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں کے باعث ایک ایسی قبائلی کمیونٹی میں گلوبلائزیشن کی ثقافت سے متاثر ہورہی ہے جہاں پر اس کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘
سابق صوبائی وزیر اور فوجی افسر امین گنڈاپور نے تاریخی تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام مفتوح قبائل نے فاتحین کی مقامی تہذیبوں کو اختیار کیا جس کے باعث ڈی آئی خان کے معاملے میں بھی ایسا ہونا بعید از اقیاس نہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here