چمن (مالک اچکزئی سے) پاکستان کے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے خلاف سرحدی صوبوں میں جاری آپریشن کے باعث مقامی آبادی کے لیے بھی شناختی دستاویزات کا حصول مشکل ہوگیا ہے کیوں کہ حکام نے اس حوالے سے موجود قوانین سخت کردیے ہیں۔
پشاور میں آرمی سکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد ، جس میں بچوں کی بڑی تعداد سمیت 140افراد شہید ہوگئے تھے، حکام افغان مہاجرین کے حوالے سے اس شک کے باعث سخت رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کے کیمپوں اور آبادیوں میں دہشت گرد وں نے مہاجرین کے بھیس میں پناہ لے رکھی ہے۔
حتیٰ کہ حال ہی میں متعارف کروائے جانے والے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کا حصول نسبتاًآسان تھا لیکن اب ان کے اجرا میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں جس کے باعث سرحدی قصبے چمن میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے جہاں پر مہاجرین اکثر و بیش تر مقامی آبادی کا حصہ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
چمن میں نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے دفتر کے باہر لوگوں کی طویل قطاروں کو انتظار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جوتاخیر کے باعث شکایت کناں نظر آتے ہیں۔ خواتین بھی خود کو رجسٹرڈ کروانے کے لیے مختلف قطار میں کھڑی انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔
چمن کے رہائشی 30برس کے نیاز محمد کہتے ہیں:’’ 10ماہ گزر چکے ہیں اور میں ہنوز شناختی کارڈ کے حصول کا منتظر ہوں۔ وہ (نادراحکام) کہتے ہیں کہ یہ ( اس شک کے باعث کہ وہ افغان ہیں) جاری نہیں ہوسکتا۔‘‘
حکام اس شکوک و شبہات کا شکار ہیں کہ مقامی پشتون، جن کی سرحد کے اس پار افغانوں سے نہ صرف رشتہ داری ہے بلکہ لسانی قربت بھی ہے، مہاجرین کو اپنا رشتہ دار ظاہر کرکے ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ یا افغان مہاجرین خود کو مقامی شہری ظاہر کر رہے ہیں۔‘‘
نیاز محمد کہتے ہیں کہ ان کے پاس تمام متعلقہ دستاویزات موجود ہیں لیکن ان کا شناختی کارڈ ’’دھوکہ دہی‘‘ کے باعث جاری نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا:’’ میرے پاس مقامی انتظامیہ کی جانب سے جاری کی گئی جنم پرچی ہے، والد کا شناختی کارڈ ( 1974ء میں جاری ہوا تھا) اور پاکستان میں اپنی جائیداد کی دستاویزات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہنوز شناختی کارڈ جاری نہیں کیا گیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ نادرا کے دفتر کی جانب سے ان کو مطلع کیا گیا کہ ان کے خاندان کے کسی فرد نے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے درخواست دی ہے جو خود کو ان کا بھائی ظاہر کررہا ہے لیکن حقیقت میں وہ ان کا بھائی نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ آگاہ نہیں ہیں کہ کس نے خود کو ان کے خاندان کا رکن ظاہر کرکے ان کے خاندان کے ریکارڈ میں اپنا نام درج کروانے کی کوشش کی۔ نیاز محمد استفسار کرتے ہیں:’’ کون نادرا حکام کی ملی بھگت کے بغیر اس قسم کی دھوکہ دہی کرسکتا ہے؟ ایک عام شخص کس طرح حکام کی مدد کے بغیر نادرا کے ڈیٹابیس تک رسائی حاصل کرسکتا ہے؟‘‘
اس دھوکہ دہی کے باعث ان کے خاندان کے تمام افراد کے شناختی کارڈ منسوخ کردیے گئے ہیں۔ان کے خاندان کا کوئی فرد بھی اب شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتا۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی نائب صدر وضلع قلعہ عبداللہ سے پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن عبدالقہار وڈان کہتے ہیں:’’ یہ صرف پشتون قوم ہے جن کے شناختی کارڈز نادرا کی جانب سے منسوخ کیے گئے ہیں جب کہ ملک کے دیگر حصوں کے لیے قوانین مختلف ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پشتونوں کو پاکستان کی شہریت سے محروم کر دیا گیا ہے۔
چمن کے شہری شاہ جہاں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد 2004ء میں چل بسے تھے لیکن ان کے شناختی کارڈ کو ایک نامعلوم شخص اپنی تصویر لگا کر استعمال کر تا رہا۔
شاہ جہاں نے کہا:’’ یہ خدا کا شکر ہے کہ میں نے اس بارے میں تفتیش کی اور والد کی وفات کے دس برس بعد ان کی موت کا سرٹفیکیٹ نادرا کے دفتر میں پیش کیا‘ دوسری صورت میں یہ معلوم تک نہیں ہوپانا تھا کہ میرے والد کا شناختی کارڈ کوئی دوسرا شخص استعمال کر رہا ہے۔ وہ ان شناختی کارڈز کو مجرمانہ مقاصد کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔‘‘
وہ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ’’ کوئی شخص بھی حکام کی مدد کے بغیر اس قسم کی دھوکہ دہی نہیں کرسکتا کیوں کہ بے خوف افغان مہاجرین چمن میں نادرا کے حکام کو ( جعلی شناختی کارڈ بنانے کے لیے) بھاری رقوم ادا کرتے ہیں۔‘‘
شاہ جہاں ہی صرف اس قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کر رہے۔ نادرا کے دفتر کا رُخ کرنے والے بہت سے لوگوں نے ’’ جعلی سازی کے ایسے کیسوں‘‘ اورشناختی کارڈوں کے اجرا میں تاخیر کی شکایت کی۔
عبدالباسط کہتے ہیں کہ ان کی ماں کو مکہ کی زیارت کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا:’’ لیکن ان کا شناختی کارڈ ’’ جعل سازی کے کیس‘‘ سے ہنوز خارج نہیں ہوا ‘حتیٰ کہ ہم متعلقہ دستاویزات مکمل کرچکے ہیں جنہیں ایک برس قبل نادرا کی تفتیشی کمیٹی کے روبرو پیش کر دیا تھا۔‘‘
نادرا کی سرکاری ویب سائٹ پر شناختی کارڈ کے حصول کے لیے ناگزیر قرار دی گئی دستاویزات میں ’’ جنم پرچی یا پرانا شناختی کارڈیا میٹرک کا سرٹفیکیٹ (صرف تعلیم یافتہ افراد کے لیے) یا قریبی رشتہ داروں کے شناختی کارڈیا وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیا گیا شہریت کا سرٹفیکیٹ شامل ہے۔ ناخواندہ افراد سے پہلی بار شناختی کارڈ بنواتے ہوئے عمر کی تصدیق کے لیے کسی قسم کی کوئی دستاویزات طلب نہیں کی جاتیں۔‘‘
عبدالقہار وڈان نے کہا:’’ پشتونوں کے لیے پاکستان کی شہریت کا کارڈ حاصل کرنے کے حوالے سے تشکیل دیے گئے قوانین نسبتاً سخت ہیں اور ملک کے دیگر حصوں سے قطعاًمختلف ہیں۔ پنجاب، سندھ اور صوبہ بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں آپ آسانی سے پاکستانی شہری کے طور پر رجسٹرڈ ہوسکتے ہیں۔ لیکن نادرا نے اپنے متعصبانہ قوانین کے باعث بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں اور ملک بھر میں سینکڑوں شناختی کارڈ منسوخ کررکھے ہیں۔ میں نے قومی اسمبلی کے فورم پر اس حوالے سے کئی بار آواز اٹھائی ہے لیکن نادرا نے ہمارے (پشتونوں) حوالے سے سخت پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘
نیوز لینز نے نادرا آفس کے نگران جیلانی سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے میڈیا میں اپنا مؤقف ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔
مقامی تاجر عبدالظاہر نے کہا کہ انہوں نے اپنا شناختی کارڈ جلد از جلد بنوانے کے لیے 20ہزار روپے ادا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ میں نادرا حکام کی جانب سے تاخیری حربوں کے استعمال کے باعث مہینوں اور برسوں تک انتظار نہیں کرسکتا۔ میں مقامی ایجنٹوں اور متعلقہ دفتر میں رشوت دینے پر مجبور ہوں۔‘‘
مقامی شہری نذیر احمد نے کہا کہ آپ رقم ادا کرکے غیر قانونی کارڈ حاصل کرسکتے ہیں لیکن اصل دستاویزات کے حامل افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کو رشوت دینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ 42برس کے نذیر احمد سے ایجنٹوں نے متعدد بار رابطہ کیااور کہا کہ اگر وہ چاہتے ہیں توایک مخصوص رقم ادا کرکے شناختی کارڈ بنواسکتے ہیں۔
سر پر سفید پگڑی پہنے 30برس کے ملا محمد عمر نے کہا کہ نادرا کی جانب سے ناگزیر قرار دی گئی ان کی تمام دستاویزات مکمل ہیں لیکن ان کا شناختی کارڈ ہنوز جاری نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا:’’ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ میں ایک ملا کی طرح دکھائی دیتا ہے اور شاید اسی وجہ سے وہ میرا شناختی کارڈ جاری نہیں کر رہے۔ ورنہ میرے والد اور بھائیوں کا قومی شناختی کارڈ جاری ہوچکا ہے۔ حتیٰ کہ مجھے اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کروانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب میں نے کارڈ حاصل کرنے کے لیے چار برس قبل اپنی تمام دستاویزات جمع کروائیں۔‘‘