بلوچستان میں بجلی کا بحران سنگین رُخ اختیار کر گیا

0
3770

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai
بلوچستان (شاہ میر بلوچ سے) پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں بجلی کی فراہمی کے سرکاری ادارے کوئٹہ الیکٹرسٹی سپلائی کارپوریشن (کیسکو) کے ترجمان نے کہا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران قومی سطح پر بجلی کے بحران اور صوبے میں صارفین کی جانب سے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی کا بحران سنگین رُخ اختیار کر گیا ہے۔
صوبے کے دوردراز کے علاقوں جیسا کہ زلرلہ سے متاثرہ شہر آواران کے باسی شکایت کناں ہیں کہ شہر میں بجلی پورا دن صرف دو سے تین گھنٹے ہی دستیاب ہوتی ہے جس کے باعث کاروبار اور روزمرہ زندگی بدترین طریقے سے متاثر ہورہی ہے۔ 
آواران شہر کے رہائشی شبیر رکشانی نے نیوز لینز پاکستان سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’ لوگ اپنے دفتروں میں نہیں جاسکتے کیوں کہ بجلی کے طویل تعطل کے باعث کمروں میں اندھیرا ہوتا ہے اور کمپیوٹر بند ہوتے ہیں۔‘‘
کسانوں کی تنظیم زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان (زیڈ اے سی بی) نے کوئٹہ میں بجلی کے طویل ترین تعطل کے خلاف احتجاج کیا۔ زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری عبدالرحمان نے کہا:’’ صوبے کی 75فی صد آبادی کا انحصار زراعت اور لائیو سٹاک پر ہے لیکن لوڈ شیڈنگ میں حالیہ اضافے کے باعث فصلوں کی کاشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بجلی کے اس تعطل کے باعث ٹیوب ویل استعمال نہیں کیے جاسکتے جس کے باعث کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوتا۔‘‘
کسانوں نے بجلی کے بحران کو فوری طور پر حل نہ کرنے کی صورت میں احتجاج کے دائرہ کار کو بڑھانے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔
تاہم بجلی کے بحران نے صوبہ بھر میں گھریلو صارفین کی روزمرہ زندگی کو متاثر کیا ہے جہاں پر شہری علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ چھ سے آٹھ گھنٹوں تک ہورہی ہے۔ دور دراز کے دیہی علاقوں میں دن کے 24گھنٹوں میں سے بجلی صرف تین سے چار گھنٹوں تک ہی دستیاب ہوتی ہے۔
کیسکو کے ترجمان کے مطابق بلوچستان کو صرف چار سو میگاواٹ بجلی کی فراہمی عمل میں لائی جارہی ہے جب کہ صوبے کو 1650میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اس وقت 1250میگاواٹ بجلی کا شارٹ فال ہے کیوں کہ قومی گرڈ سٹیشن سے صرف چارسو میگاواٹ بجلی سپلائی کی جارہی ہے جب کہ 1650میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے۔یہ بحران اس وقت سنگین رُخ اختیار کر گیا جب صارفین اور خاص طور پر کسانوں نے واجب الاد ابل ادا نہیں کیے جو کہ ایک ارب روپے تک ہیں جب کہ بنیادی طو رپر زمیندار بڑے پیمانے پر نادہندہ ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر صوبے کو بجلی کی فراہمی میں کمی کی گئی ہے۔ 
کیسکو کے ترجمان کے مطابق بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث صارفین کو کیسکو کے 132ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ ان 132ارب روپے میں سے زراعت سے منسلک صارفین کے ذمہ 115ارب روپے واجب الادا ہیں۔ انہوں نے کہا :’’ کسانوں نے اس وقت اہل کاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ ان سے واجب الادا بل وصول کرنے اور ان کے کنکشن کاٹنے کے لیے گئے۔‘‘
تاہم کسان جیسا کہ شعیب سمالانی یہ یقین رکھتے ہیں کہ حکومت کو واجب الادا بلوں کی وصولی کے ضمن میں کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ 
انہوں نے کہا :’’ میں اپنے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے ٹیوب ویل استعمال کرتا ہوں اور ہر ماہ باقاعدگی سے بل ادا کرتا ہوں۔اس علاقے میں درجنوں غیر قانونی کنکشن نصب ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد بل ادا نہیں کرتی۔‘‘ شعیب سمالانی ضلع مستونگ کے نواحی علاقے دشت میں سیب و دوسرے پھل کاشت کرتے ہیں۔
اگرچہ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن بلوں کی ادائیگی کے بعد بھی یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوگا۔ شعیب سمالانی نے کہا:’’ بلوں کی ادائیگی کے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہوجائے گا جیسا کہ اس کا دورانیہ پاکستان کی وزارتِ پانی و بجلی کی ہدایت پر بڑھایاگیا ہے۔‘‘ تاہم بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورانیے کا تعلق ملک میں بجلی کے شارٹ فال سے ہے۔
کیسکو سے حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق بلوچستان میں چار بڑے پاور پلانٹ ہیں جہاں سے تقریباً23سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ حبکو پاور پلانٹ سے 1229میگاواٹ بجلی پیدا ہورہی ہے، حبیب اللہ کوسٹل پاور پلانٹ سے 140، اچ پاور پلانٹ ون اور ٹو سے مجموعی طور پر9سو میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔ 
تاہم ان پاور پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی قبل ازیں قومی گرڈ سٹیشن کا حصہ بنائی جاتی ہے جو بعدازاں پاکستان بھر میں فراہم کی جاتی ہے۔ کیسکو کے ترجمان نے کہا:’’پاکستان تقریباً2ہزار میگاواٹ بجلی پیداکرتا ہے جب کہ بلوچستان کو صرف پانچ فی صد بجلی فراہم کی جاتی ہے۔‘‘
صوبے میں جاری بجلی کے بحران پر اپنے بیان میں وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ان کی حکومت ایرا ن سے بجلی درآمد کرنے کی تجویز پیش کرچکی ہے جس کے باعث یہ بحران مستقل طور پر ختم ہوجائے گا۔
ایران پہلے سے ہی اپنے ملک کی سرحد سے متصل پاکستان کی مکران ڈویژن کے اضلاع گوادر، تربت اور پنجگورکو بجلی فراہم کررہا ہے۔ تاہم گزشتہ ایک دہائی کے دوران ان علاقوں میں توانائی کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ 
کیسکو کے ترجمان اس اَمر سے اتفاق کرتے ہیں کہ بجلی کی درآمد سے یہ بحران حل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا:’’ 220کے وی کی دو بڑی ٹرانسمیشن لائنوں کی تنصیب پر کام جاری ہے جو جلد مکمل ہوجائے گا جس سے اس بحران کی شدت پر قابو پانے میں مزید مدد ملے گی۔‘‘
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے مقامی اخبار کے مدیر صدیق بلوچ کہتے ہیں کہ بجلی کی دانستہ لوڈشیڈنگ بلوچستان کے باسیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ 
انہوں نے کہا:’’ ایران گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کو کم قیمت پر بجلی فراہم کرنے کا خواہاں رہا ہے لیکن اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔ میرا نہیں خیال کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے بنیادی مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی ظاہر کرے گی۔‘‘
صدیق بلوچ کا خیال ہے کہ بلوچستان میں لوگ پتھر کے زمانے میں ر ہ رہے ہیں جہاں بیش تر علاقوں میں گیس اور نہ ہی بجلی فراہم کی گئی ہے۔
انہوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ دو ٹرانسمیشن لائنوں کی تنصیب پر کئی برسوں سے کام جاری ہے اور اس پر مزید وقت صرف ہوگا۔ اسی طرح ایران سے بجلی کی درآمد کے کسی بھی منصوبے پر عملدرآمد پر ایک دہائی سے زیادہ عرصہ صرف ہوگا۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here