انٹرنیٹ پردہشت گردی کے انسداد کے لیے کوئی باضابطہ قانون موجود نہیں

0
4450

کراچی(تہمینہ قریشی سے )2009سے پاکستان میں کوئی باضابطہ قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت حکومت سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے مؤثر طور پر کارروائی کرسکے‘ خاص طور پر وہ لوگ جو ذاتی مواد کی چوری و دہشت گردی کے پھیلاؤ میں ملوث ہوتے ہیں۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد سرفراز نے کہا:’’الیکٹرانک جرائم کے تحفظ کا آرڈیننس (PECO) 2007ء میں نافذ ہوا لیکن یہ 2009ء میں ناقابلِ عمل ہوگیا۔ اس وقت سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کیوں کہ وہ انٹرنیٹ کی دنیا پر جرائم کرنے والوں اور ان عسکریت پسندوں ،جو انٹرنیٹ پر نفرت سے بھرپور مواد کو فروغ دے رہے ہیں ،کے خلاف ایف آئی آر ( پولیس میں درج کروائی جانے والی شکایت) درج نہیں کرسکتی۔‘‘
انہوں نے اس حوالے سے اپنے ادارے کی بے بسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:’’ ملک بھر سے تقریباً پانچ سو شکایات ماہانہ موصول ہوتی ہیں جن میں سے تین سو درست ہوتی ہے لیکن ہم سزائیں دینے کے حوالے سے رسمی قوانین نہ ہونے کے باعث کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کارپوریٹ سیکٹر سے متعلقہ جرائم، فراڈز کے کیسوں، ای میل کی حساس معلومات حاصل کرنے کے علاوہ الیکٹرانک حملوں سے نمٹ رہی ہے لیکن اس حوالے سے قوانین کے نہ ہونے کے باعث کچھ نہیں کرسکتی۔ 
مبہم قانون سازی:
اگرچہ مختلف قوانین جن میں الیکٹرانک ٹریڈ آرڈیننس2002ء (ای ٹی او 2002ء )، تعزیراتِ پاکستان کی شق اور انسدادِ دہشت گردی کا ایکٹ 1997ء موجود ہیں لیکن ان کے نفاذ کے حوالے سے بہت سے ابہامات پائے جاتے ہیں کیوں کہ یہ ایک دوسرے سے الگ ہیں اور کسی ایک ادارے کی جانب سے ان کی نگرانی نہیں کی جاتی۔
بیرسٹر زاہد جمیل کہتے ہیں کہ سائبر کرائمز کی روک تھام سے متعلق قوانین کے نہ ہونے کے باعث ایف آئی اے کو ای ٹی او 2002ء پر انحصار کرنا پڑتا ہے، تاہم یہ مددگار نہیں ہے کیوں کہ مقامی عدالتوں میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو اس قانون کے تحت حاصل کیے گئے شواہد درست خیال نہیں کیے جاتے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ جب کارروائی شروع ہوتی ہے تو مقدمہ برسوں کی طوالت اختیار کر جاتا ہے جس کے باعث یہ کمزور ہوجاتا ہے اور یوں جرم کا تدارک نہیں ہو پاتا۔‘‘
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 153A( جو مختلف گروہوں کے مابین دشمنی میں اضافے سے متعلق ہے)، انسدادِ دہشت گردی کا ایکٹ 1997ء اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002ء میں یہ شقیں موجود ہیں جن کے تحت کوئی بھی عمل یا الفاظ جو تشدد یا نفرت کے فروغ کا باعث بنتے ہیں ‘ ان پر سزا ہوسکتی ہے لیکن یہ ابہام برقرار رہتا ہے کہ کیا کوئی جرم انٹرنیٹ پر کیا گیا ہے یا انٹرنیٹ ہی کسی جرم کی وجہ بنا۔‘‘
ایک اور قانون دان جبران ناصر، جو کہ سول سوسائٹی کی اسلام آباد میں لال مسجد کے خلاف جاری مہم کی قیادت کر رہے ہیں، کا یہ ماننا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ1997ء کی دفعات 8,6اور 11انٹرنیٹ پر نفرت کے فروغ کو روکنے کے لیے ہیں جو ملزموں کو سزائیں دینے کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔ 
لیکن بیرسٹر زاہد جمیل اس نقطۂ نظر سے متفق نہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ ان شقوں کو الگ الگ استعمال نہیں کیا جاسکتا اور ان قوانین کو ایک ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی 1997ء کی شق 11Eکے تحت ایک ایسی تنظیم کے اثاثے و دفاتر کے علاوہ تحریری مواد کو سِیل کیا جاسکتا ہے ‘جو صرف نفرت پر مبنی مواد کی منظم انداز میں ترویج کرتی ہے۔ 
وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے کہا کہ متعلقہ قوانین نہ ہونے کے باعث سائبر کرائم زیادہ ہولناک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے انٹرنیٹ کی دنیا کے جارحیت پسندوں سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔ 
ہاتھ بندھے ہوئے ہیں:
انٹرنیٹ پر ہونے والے جرائم کے حوالے سے کوئی مربوط قانون نہ ہونے کے باعث ای ٹی او (2002ء ) ہی واحد متبادل رہ جاتا ہے جس کے باعث ایف آئی اے کی تفتیش ناکامیوں پر منتج ہوتی ہے۔ 
ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد سرفراز نے کہا:’’ مثال کے طور پر منی ایکسچینج کمپنیوں کے وکیل الیکٹرانک جرائم سے تحفظ کے ناقص آرڈیننس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اورعدالت میں سزا میں رعایت کے لیے درخواست جمع کرواتے ہیں جو منظور ہوجاتی ہے۔‘‘
ایف آئی اے سائبر کرائم سیل سندھ کے انچارج محمد احمد عظیم کہتے ہیں: تاہم سب سے بڑی مشکل سیلولر پر جاری سرگرمیوں سے نمٹنے میں پیش آتی ہے۔‘‘
کمپنیاں ایف آئی اے کو معلوما ت فراہم کرنے سے انکار کرچکی ہے اور انٹیلی جنس بیورو کے توسط سے درخواست ارسال کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں، جس کے باعث ایف آئی اے کی کارروائی درمیان میں ہی رک جاتی ہے‘ یوں اسے مکمل ہونے میں ایک ماہ لگ جاتا ہے جس کے باعث ملزم کے پاس فرار ہونے کا منصوبہ بنانے کے لیے خاصا وقت ہوتا ہے۔ 
انٹرنیٹ سے متعلق مبہم قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی پنجاب اور سندھ میں لاکھوں روپے صرف کرکے سائبر کرائم سیل قائم کیے گئے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 
ایف آئی اے کی ویب سائٹ کے مطابق ایف آئی اے اگرچہ انٹرنیٹ کے جرائم سے متعلق کوئی مربوط قانون نہ ہونے کے باعث نیشنل رسپانس سنٹر فار سائبر کرائمز تشکیل دے چکی ہے جس کا بنیادی مقصد حکومت کے مختلف اداروں کے مابین رابطہ قائم کرنا ہے۔
بیرسٹر زاہد جمیل نے کہا کہ ای ٹی او (2012ء ) پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے اولین قانون تھا جو ای کامرس کو قومی و بین الاقوامی سطح پرقانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ 
دوسری جانب الیکٹرانک جرائم سے تحفظ کا آرڈیننس ایف آئی اے کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ سائبر دہشت گردی، مواد کے نقصان، آن لائن فراڈ و جعل سازی، ہیکنگ، انٹرنیٹ پر چھُپ کر وار کرنے والوں اور غیر قانونی طور پر بھیجی جانے والی ای میلوں کا انسداد کرے۔ 
سندھ پولیس کے سابق سربراہ اور نیشنل رسپانس سنٹر فار سائبر کرائمز کے پراجیکٹ ڈائریکٹر شاہد ندیم بلوچ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ہونے والے جرائم زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں کیوں کہ اس کارروائی میں جسمانی عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ انہوں نے قوانین کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیاجو کہ انٹرنیٹ پر ہونے والی سرگرمیوں کے ضابطوں سے متعلق ہوں۔
انٹرنیٹ پر دہشت گردی:
انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان یہ انکشاف کرتی ہے کہ پاکستان میں اڑھائی کروڑ لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں جن میں ڈیڑھ کروڑ ٹیلی فون کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ تعداد بڑھ رہی ہے جب کہ انٹرنیٹ پر تشدد اور نفرت انگیز موادبڑھ رہا ہے لیکن اس تناسب سے تشویش میں اضافہ نہیں ہورہا۔
انٹرنیٹ پرموجود نفرت انگیز مواد پر غیر سرکاری تنظیم بائٹس فار آل کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق 92فی صد انٹرنیٹ صارفین کاانٹرنیٹ پر نفرت آمیز مواد کی کسی نہ کسی مشکل سے واسطہ پڑتا ہے جب کہ 51فی صد اس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 
مذکورہ تحقیق کے نتائج کی بنیاد فیس بک اور ٹوئٹر کے 30اہم ترین صفحات کے علاوہ تحقیق کے دوران سماجی میڈیا استعمال کرنے والے 559افراد کی رائے پر ہے۔
تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ صارفین کا 92فی صدفیس بک اوراس کے بعد ٹوئٹر پر نفرت انگیز مواد سے واسطہ پڑا۔
مذہبی گروہوں کا سماجی رابطوں کی دونوں ویب سائٹوں پر 70فی صد مواد اہل تشیع کے خلاف ہے جس کے بعد 61فی صد احمدیوں، 43فی صد ہندوؤں، 43فی صد مسیحی آبادی اور 48فی صد ملحدین کے خلاف موجود ہے۔ لسانی تفریق کاجائزہ لیا جائے تو 38فی صد انٹرنیٹ صارفین پشتونوں، 31فی صد بلوچوں، 27فی صد پنجابیوں اور 23فی صد سندھیوں کے خلاف ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here