سرحدی علاقوں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں داعش کے حق میں وال چاکنگ

0
4567

کوئٹہ (شہزاد بلوچ اور توصیف الرحمان سے) پاکستان کے چاروں صوبوں اور پاک افغان سرحد سے متصل علاقوں میں داعش کے حق میں دیواروں پرتحریر کیے گئے نعروں نے نہ صرف حکومت بلکہ معتدل سوچ کے حامل شہریوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
اگرچہ عسکریت پسند تنظیم داعش بلوچستان میں ہنوز فعال نظر نہیں آتی لیکن پوشیدہ عناصر نے صوبے کے مختلف علاقو ں میں داعش اور اس کی پالیسیوں کے حق میں نعرے تحریر کیے ہیں۔ بلوچستان کی سرحد ایران اور افغانستان سے متصل ہے جو بڑھتی ہوئی بلوچ عسکریت پسندی اور فرقہ ورانہ تشددکے باعث تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔
وال چاکنگ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے صرف دور دراز کے علاقوں میں ہی نہیں کی گئی بلکہ معدنیات سے مالامال صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ کے شہری علاقوں میں بھی دیواروں پر نظر آئی‘ان نعروں میں ’’آئی ایس آئی ایس اور داعش زندہ باد‘‘ (آئی ایس آئی ایس کا اردو نام ) اور’’أبوبکر البغدادی زندہ باد‘‘ شامل ہیں جو کہ داعش کے رہنما ہیں۔ 
بحیرۂ عرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ مکران ڈویژن میں یہ نعرے عدم رواداری پیدا کرنے کی کوشش نظر آتے ہیں۔ ایک نعرے میں ’’ غیر مسلم یا ذکری مردہ باد‘‘ لکھا گیا ہے۔ ذکری مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے جس کے پیروکار اللہ تبارک تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کی عبادات دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں۔
داعش عراق اور شام کا ایک عسکریت پسند گروہ ہے۔ اس کا ابتدائی مقصد عراق اور شام کے سنی اکثریتی علاقوں میں خلافت قائم کرنا تھا لیکن بعدازاں اس نے عالمی ایجنڈا پیش کیا۔ أبوبکر البغدادی داعش کے رہنماء اور خلیفہ ہیں۔ یہ گروہ عراق اور شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ کہہ چکے ہیں کہ وہ لوگ جن کی طرزِ فکر داعش سے مطابقت رکھتی ہے، بلوچستان میں موجود ہیں اوروہ خلافت یا اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں جس کاداعش وعدہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ صوبے میں داعش کی موجودگی کے خدشات کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔
چند مقامی عسکریت پسند گروہ ،جن میں تحریکِ طالبان پاکستان (الاحرار) اور جنداللہ شامل ہیں، پہلے ہی البغدادی کی اطاعت کا حلف اٹھاچکی ہیں اور پاکستان میں داعش کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے داعش کی صوبے میں موجودگی کو رَدکیا اور کہا:’’ بلوچستان میں آئی ایس آئی ایس یا داعش باضابط طور پر موجود نہیں ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی کسی سرگرمی کا علم ہوسکا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا:’’داعش شیعہ مسلمانوں کے خلاف لڑتی ہے جب کہ پاکستان میں آبادی کا ایک فی صد سے بھی کم حصہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی سوچ کا حامل ہے۔ داعش کے ایجنڈے کے فروغ پانے کے لیے صوبے میں کوئی جگہ نہیں ہے کیوں کہ لوگوں کی طرزِ فکر شام کی آبادی کی نسبت مختلف ہے۔‘‘
بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ نے مزید کہاکہ ضربِ عضب کے باعث فرار ہونے والے عسکریت پسندوں کے حامی دیواروں پر نعرے تحریر کرکے خوف پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری ہے۔ 
اکبر حسین درانی نے کہا:’’ یہ نعروں سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘
کوئٹہ پولیس شہری علاقوں میں درج ایسے نعروں کے بعد تفتیش کا آغاز کر چکی ہے، تاہم کوئٹہ پولیس کے ایک افسر نے نیوز لینز کو بتایا کہ اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی کہ ان نعروں کی تحریر کے پس پردہ کون سے عناصر کاہاتھ ہے۔ پولیس افسر اپنا نام ظاہرنہیں کرنا چاہتے تھے کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان(ایچ آر سی پی) کی بلوچستان شاخ کے سربراہ طاہر حسین نے کہا کہ ایچ آر سی پی کو مذہبی گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے باعث سنجیدہ نوعیت کے تحفظات ہیں۔ انہوں نے ایچ آر سی پی کے بلوچستان میں فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:’’ بہت سی تنظیمیں جیسا کہ کالعدم لشکرِ جھنگوی اور جماعت الدعوۃ بلوچستان میں خود کو مستحکم کر رہی ہیں۔‘‘
ایچ آر سی پی کی سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس طرح کے گروہوں پر نظر رکھتے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ 
انہوں نے کہا:’’ اداروں کی واضح طور پر یہ حکمتِ عملی نظر آتی ہے کہ بلوچستان میں روشن خیال بلوچ عسکریت پسندوں کے اثر و رسوخ کو ختم کیا جائے تاکہ ان کی تحریک کمزورہو۔‘‘
بلوچ قوم پرست جماعتیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے طاقت ور سکیورٹی اداروں پر بلوچستان میں مذہبی جماعتوں کی حمایت کا الزام عاید کرتی ہیں‘ وہ کہتی ہیں کہ اس سے صوبے میں شام کی طرح کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
کالعدم فرقہ پرست گروہ لشکرِ جھنگوی بلوچستان میں سینکڑوں شیعہ مسلمانوں اور بیسیوں پولیس افسروں کو قتل کرچکی ہے۔ پولیس میں موجود ذریعے کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئٹہ میں اور اس کے اطراف میں ہونے والے تباہ کن حملوں کو روکنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 
ذریعے نے یہ بھی کہا کہ کالعدم لشکرِ جھنگوی اور داعش کے درمیان روابط ہوسکتے ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی پختہ ثبوت نہیں ملا جن سے ان رابطوں کی توثیق ہوسکے۔ نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے کارکن وجاحت مسعود نے کہا:’’ لشکرِ جھنگوی اور داعش کے درمیان سب سے ٹھوس رابطہ ان کا شیعہ مخالف ایجنڈا ہوسکتا ہے۔‘‘
خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب میں داعش کے حق میں وال چاکنگ
بلوچستان کی طرح دہشت گردی سے متاثرہ پاک افغان سرحد سے متصل صوبے خیبر پختونخوا میں بھی ایسے نعرے نظر آچکے ہیں‘ سندھ اور پنجاب میں لوگ دیواروں اور سنگِ میل پر ’’داعش زندہ باد‘‘ اور ’’أبوبکر البغدادی زندہ باد‘‘ کے نعرے دیکھ چکے ہیں۔گزشتہ برس ستمبر میں ’’فتح‘‘ کے نام سے پشتو اور داری زبانوں میں کتابچہ شایع ہوا تھا جو پشاور کے نواح میں افغان مہاجرین کے کیمپوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ کتابچے میں لوگوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ خلافت کے قیام میں داعش کی مدد کریں۔ 
کراچی (سندھ) میں داعش کی حمایت میں نعرے سہراب گوٹھ، اورنگی ٹاؤن اور شہر کے دوسرے علاقوں میں دیکھے گئے تھے۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں بھی اسی طرح کی وال چاکنگ کی گئی۔ لاہور پولیس کو ایک ڈاک خانے کے باہر سے داعش کے حق میں مواد بھی ملا تھا۔ 
سکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ داعش عراق اور شام میں مختلف محاذوں پر لڑ رہی ہے جس کے باعث اس کی دنیا کے اس خطے میں رسائی کی منظم کوششوں کا امکان دکھائی نہیں دیتا تاہم پاکستان میں عسکریت پسند تنظیموں سے الگ ہونے والے والے گروہ خود کو داعش کے ساتھ منسلک کر سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور سید اختر علی شاہ نے کہا:’’ اب تک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جو پشاور میں ہونے والی وال چاکنگ میں داعش کی براہِ راست شمولیت کو ظاہر کریں۔‘‘ انہوں نے کہا:’’ کوئی ایسی معلومات دستیاب نہیں ہوسکیں کہ ان (داعش اور پاکستانی طالبان) میں اتحاد قائم کرنے کے لیے کوئی رابطہ ہوا ہو۔‘‘
تاہم پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر خادم حسین داعش کے حق میں وال چاکنگ کو ایک سنجیدہ خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ طالبان پاکستان اپنے اہم ترین ٹھکانے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن میں ہونے والی شکست کے باعث داعش جیسی تنظیم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوگی۔ 
انہوں نے کہا:’’ پاکستان میں کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں عسکریت پسندوں کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتی ہیں جو یہ چاہیں گی کہ خوف قائم رہے۔ وال چاکنگ ایک طرح کا اشارہ ہے کہ ان میں خود کو منظم کرنے کی اہلیت موجود ہے۔‘‘
تاہم اکبر علی شاہ کہتے ہیں کہ حکومت کی بہت واضح قومی سکیورٹی پالیسی ہے اور وہ پاکستان میں داعش کے لیے کوئی جگہ نہیں دیکھتے۔ 
انہوں نے کہا:’’ حکومت وال چاکنگ اور کتابچوں کی تقسیم جیسی سرگرمیوں کا قریب سے مشاہدہ کر رہی ہے اور پرتشدد انتہاپسندی کی کسی بھی شکل کے انسداد کے لیے پرعزم ہے۔‘‘
خادم حسین اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے‘ وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیمیں وسطی اور جنوبی ایشیا میں نئے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ ایک تنظیم کے جس قدر عالمی تعلقات ہوں گے، وہ اس قدر ہی طاقت ور تصور ہوگی۔ اس وقت داعش اور القاعدہ دونوں ہی اپنے اثر ورسوخ کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
پشاور سے تعلق رکھنے والے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر سعد محمد نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش سے کوئی فوری خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا:’’ ہوسکتا ہے کہ داعش آنے والے برسوں میں پاکستان میں خود کو مستحکم کرنے کی کوشش کرے کیوں کہ اس کے ہمدرد یہاں پر موجود ہیں جن میں چند جہادی گروہ، تحریکِ طالبان پاکستان سے ناراض عناصر اور افغان طالبان کی نئی نسل شامل ہے جو عالمی ایجنڈا رکھتی ہے۔‘‘
ریٹائرد فوجی افسر نے داعش کے ممکنہ اتحادیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریکِ طالبان پاکستان سے الگ ہونے والے گروہ، جنداللہ، لشکرِ جھنگوی اور حرکتِ جہادِ اسلامی اس کے اتحادی بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی جنگجو جن میں چیچن اور اویغور شامل ہیں اور جو اس وقت کمزور اور بکھرے ہوئے ہیں ، ایک مضبوط مرکز کے قیام کے لیے داعش میں شامل ہوسکتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here