پاکستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ ایک ایسے شخص کو قتل کے مقدمہ میں بری کیا ہے جو 19برس تک جیل میں قید رہا، سپریم کورٹ اس بارے میں لاعلم تھی کہ یہ شخص دو برس قبل دورانِ حراست وفات پاچکا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چھ اکتوبر کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا:’’ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ ہم اس کے جیل میں گزرے 19برسوں کا مداوا کرسکیں۔‘‘

خواجہ مظہر حسین نے 2010ء میں اپیل دائر کی تھی جب انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انہیں 1997ء میں گرفتار کیا گیا اور مقدمہ چلایا گیا۔

خواجہ صغیر نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ہم 1997ء سے عدالت میں اس مقدمے کی پیروی کررہے ہیں جب میرے کزن پر اس قتل کا الزام عائد ہوا تھا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا:’’بہت سا پیسہ خرچ ہوا اور مقدمے کی سماعت طویل ہوتی چلی گئی۔‘‘

اپیل کے انتظار کے دوران مرکزی شکایت کنندہ اور گواہ انتقال کرگئے ، اسی طرح مظہر کے والد اور ان کے دو چچابھی وفات پاگئے۔

مظہر کو1997ء میں گرفتار کیا گیا جب ان کے بڑے صاحبزادے کی عمر آٹھ برس اور چھوٹا صرف چھ ماہ کا تھا۔ ان کی اہلیہ اسلام آباد کے نواح میں ڈھوک حیدر علی میں رہتی رہی ہیں۔

2015ء میں قومی اسمبلی نے یہ کہا تھا کہ سپریم کورٹ اور نچلی عدالتوں میں 17لاکھ مقدمات التوا کاشکار ہیں۔ 31دسمبر2013ء تک سپریم کورٹ میں زیرِالتوا مقدمات کی تعداد20,480تھی اور ایپکس کورٹ کے ججوں کی مجموعی تعداد 17 تھیں جن میں چیف جسٹس بھی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ اس وقت قتل کی ان اپیلوں کی سماعت کررہی ہے جن کی 2010ء اور2011ء میں ہائی کورٹ توثیق کرچکے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر قاضی انور نے کہا:’’ جیل میں اپیل کا انتظار کرتے ہوئے اس موت کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔‘‘

انہوں نے زور دیا:’’ہمیں ناتمام کام کو ختم کرنے کے لیے مقدمات کو منتظم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

برسرِاقتدار مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے قانون ساز ظفر علی شاہ نے کہا:’’قانونی و عدالتی نظام میں کچھ خامیاں ضرور ہیں لیکن یہ مجموعی طورپر برا نہیں ہے۔انتظامی مسائل درپیش ہیں اور ہر فریق بشمول حکومت، عدلیہ، وکلا اور انتظامیہ کو عدلیہ کابوجھ کم کرنے اور برسوں کے اس ناتمام کام کو ختم کرکے فوری انصاف کی فراہمی کے لیئے ان مسائل کے حل کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

ایک اور قتل کے مقدمہ میں دو ملزموں کو بری کردیا گیاجن کے بارے میں سپریم کورٹ آگاہ نہیں تھی کہ انہیں 2015ء میں ایک اور مقدمہ میں سزائے موت دی جاچکی ہے۔

ان کی اپیل سپریم کورٹ نے مسترد کردی تھی اور صدرِ مملکت نے ان کی رحم کی اپیل منظور نہیں کی تھی۔

وکلاء نے 2015ء میں ان کی پھانسی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

محکمۂ جیل خانہ جات پنجاب کے سربراہ فاروق نذیر نے ٹروتھ ٹریکر سے بات کرتے ہوئے کہا:’’محکمۂ جیل کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہر دیتھ وارنٹ عدالت جاری کرتی ہے اور ہم صرف اس پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ مقامی عدالت تمام قانونی ریکارڈ اور مقدمے کی تفصیل دیکھنے کے بعد بلیک وارنٹ جاری کرتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ صرف ان قیدیوں کو ہی عدالت لے جایا جاتا ہے جن کے مقدمات چل رہے ہوتے ہیں۔
خواجہ مظہر حسین کے کزن خواجہ صغیر نے کہا:’’ہم نے اپنا بھائی کھو دیا ہے جسے اعلیٰ ترین عدالت نے بے گناہ قرار دیا ہے۔ ہم اس المیے کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد کرتے ہیں۔‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here