کراچی (ضیاء الرحمان سے) کراچی میں عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جاری رینجرز کی کارروائی کے خلاف اگرچہ تنقید ہوتی رہی ہے جسے اب دو برس مکمل ہوچکے ہیں، لیکن پشتون روشن خیال سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور شہر کے تاجروں کی جانب سے رینجرز آپریشن کو ایک خوش آئند اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔
پولیس اور رینجرز حکام طویل عرصہ سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ رینجرز کی کارروائیوں سے شورش زدہ شہر میں بہ ظاہر امن واپس لوٹ آیا ہے لیکن ان پر کچھ مخصوص سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں کرنے پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔
تاہم پشتون سیاسی کارکن اور تاجر واضح طور پر اس آپریشن کے ثمرات پر مسرور دکھائی دیتے ہیں جو طالبان عسکریت پسندوں کا بنیادی ہدف رہے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ شہر میں رینجرز کے آپریشن نے تحریکِ طالبان کے نیٹ ورک کو ’’مکمل طور پر پسپا‘‘ ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
محکمۂ انسدادِ دہشت گردی سے منسلک ایک سینئر پولیس افسر مظہر مشوانی نے کہا:’’ طالبان کا بنیادی ہدف پشتون روشن خیال سیاسی رہنمااور بالخصوص پشتون لسانی جماعت عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے لیڈر، پولیو کے قطرے پلانے والے کارکن، سول سوسائٹی کے ارکان اور پولیس افسر و اہل کار رہے ہیں۔ علاوہ ازیں عسکریت پسندتنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے پشتون تاجروں کو بھتے کی ادائیگی کے لیے خوف زدہ کیا جاتا اور مل جانے کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی2009ء سے تحریکِ طالبان پاکستان کا ہدف رہی ہے کیوں کہ جب وہ شمالی صوبے خیبر پختونخوا میں برسرِاقتدار تھی تو اس نے طالبان کے خلاف بے لچک رویہ اختیار کیا تھا جس کی ظالمانہ اور پرتشدد کارروائیوں نے شمالی اضلاع اور خاص طور پر قدرتی مناظر سے بھرپور سوات اور قبائلی علاقوں میں حکومتی رِٹ کو چیلنج کیا تھا۔
2009ء میں سوات، جنوبی وزیرستان اور مہمند ایجنسی سے طالبان نے آئی ڈی پیز کا روپ دھار کر کراچی کی جانب نقل مکانی شروع کر دی۔
مہمند سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت نے سکیورٹی وجوہات کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوزلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ سب سے پہلے تو انہوں (عسکریت پسندوں)نے محنت مزدوری کی کیوں کہ وہ شہر میں اپنا نیٹ ورک ازسرِ تشکیل دینے کے لیے درست وقت کے منتظر تھے۔ ‘‘ انہوں نے کہا:’’ لیکن 2011ء میں انہوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی۔ عسکریت پسندوں نے اپنے گروہوں کو کراچی میں منتظم کیااور دہشت گردی کی دیگر کاررائیاں کرنے کے علاوہ پشتون کمیونٹی ان کا بنیادی ہدف رہی جہاں انہوں نے پناہ حاصل کر رکھی تھی۔‘‘
کراچی میں تحریکِ طالبان پاکستان کے تین دھڑے فعال ہیں جن میں سوات، محسود اور مہمند طالبان شامل ہیں جو شہر کے مختلف پشتون علاقوں میں فعال ہیں اور اپنے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان جنوبی وزیرستان کے دھڑے کی قیادت خان سعید عرف سجنا کر رہے ہیںجس میں محسود عسکریت پسندوں کی اکثریت شامل ہے۔ یہ گروپ گزشتہ برس مئی میں تحریکِ طالبان پاکستان سے الگ ہونے کے بعد سے آزادانہ طور پر کام کررہا ہے۔
کراچی میں گروپ کی قیادت خان زمان عرف گونگا کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے شہر میں جاری کریک ڈائون کے دوران مذکورہ ھڑے کے کئی رہنما ء اور عسکریت پسند ہلاک کیے جس کے باعث وہ اپنے ساتھیوں پر زیرِزمین یا پھر ملک کے دیگر علاقوں میں جانے کے لیے زور دیتے رہے۔
ان دعوئوں کی تصدیق گروپ کے ارکان خود بھی کرتے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان جنوبی وزیرستان شاخ سے منسلک ایک ذریعے نے نیوز لینز پاکستان سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا:’’حالیہ مہینوں کے دوران قانون نافذ کرنے والے ادارے نے طالبان کے جنوبی وزیرستان دھڑے کے اہم رہنمائوں کو ہلاک کیا ہے جن میں عابد مچھر، عابد چھوٹا، ذکریا محسود، مفتی جاوید، خاضان گل، زاہد اللہ، عبیداللہ، عامر زاد اور خواجلاک شامل ہیں۔‘‘انہوں نے کہا کہ خان زمان اور زیول ہی اب دھڑے کے دو اہم رہنما زندہ بچے ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان سوات شاخ کے عسکریت پسند مرکزی رہنما مولانا فضل اللہ کے زیرِاثر ہے جنہوں نے 2009ء میں سوات میں پرتشدد شورش کی قیادت کی تھی۔ کراچی میں اس گروپ کا تنظیمی ڈھانچہ انتہائی خفیہ رکھاگیا ہے اور یہ بنیادی طور پر اے این پی کے رہنمائوں اور کراچی کے ضلع غربی کے پولیس افسروں اور اہل کاروں کے ہدفی قتل کی وارداتوں میں ملوث ہے۔
تحریک طالبان پاکستان محسودگروپ نے تحریکِ طالبان پاکستان سے الگ ہونے کے بعد اپنا نام تبدیل کرکے جماعت الاحرار(جے اے) رکھ لیا ہے جس کی قیادت عبدالولی عرف عمرخالد خراسانی کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اہم رہنمائوں اورجماعت کے قریبی ساتھیوں کے قتل کے باعث مذکورہ دھڑا کمزور ہوچکا ہے۔
اے این پی کے رہنما اور پشتون قبائلی عمائدین طالبان کا بنیادی ہدف رہے ہیں۔ اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید کہتے ہیں کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران طالبان عسکریت پسندوں نے پارٹی کے ایک سو سے زائد کارکنوں کوہلاک کیا ہے جن میں ضلعی صدر بھی شامل ہیں۔شاہی سید نے دعویٰ کیا کہ اے این پی کو کراچی کے ضلع غربی میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جو ایک پشتون اکثریتی قصبہ ہے اور پارٹی کا گڑھ بھی ہے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کے باعث سیاسی سرگرمیاں تعطل کا شکار ہوگئی ہیں اور رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد سکیورٹی وجوہات کے باعث شہر چھوڑ کرجاچکی ہے۔‘‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے محقق اَبوبکر یوسف زئی نے کہا:’’خطے میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک مؤقف اختیار کرنے کے باعث اے این پی خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ کراچی میں بھی عسکریت پسندوں کا بنیادی ہدف رہی ہے ۔ شہر میں اے این پی کے کارکنوں کی ایک تسلسل کے ساتھ ہلاکتوں کے باعث پارٹی کے بہت سے اراکین نے اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی میں شمولیت اختیار کی ہے۔‘‘
تحریک طالبان پاکستان نے کراچی میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو بھی نشانہ بنایا جس کے باعث پولیو مہم متاثر ہوئی۔مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق جولائی 2012ء سے اب تک انسدادِ پولیو کی مہم سے منسلک بہت سے کارکنوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ ٹی ٹی پی اور جند اللہ، ایک سنی عسکریت پسند گروہ ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں ، نے پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ کراچی میں اب پولیو ٹیموں کی سکیورٹی پر پولیس مامور کر دی گئی ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے بہت سے پولیس اہل کاروں کو بھی ہلا ک کیا ہے اور بالخصوص وہ پولیس اہل کار جو کراچی کے ضلع غربی کے پشتون علاقوں میں تعینات تھے۔
تاہم پولیس رپورٹوں کے مطابق شہر میں جاری آپریشن کے باعث ٹی ٹی پی کے تینوں دھڑے مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں۔ایک پولیس ذریعے کے مطابق، جنہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، نے کہا کہ 2015ء کے ابتدائی نو ماہ کے دوران پولیس نے شہر میں 644اشتہاریوں کو قتل کیا جن میں سے 167تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کے فعال رُکن تھے۔
کراچی میں رہائش پذیر ایک محسود قبائلی ، جو شہر میں طالبان کے دھڑوں کے فعال ہونے کے حوالے سے آگاہ ہیں، نے دعویٰ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بالخصوص رینجرز نے دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پرہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد متعدد طالبان کمانڈرز اور ان کے سہولت کاروں کو قتل کیا ہے۔
انہوں نے سکیورٹی وجوہات کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’گزشتہ دو ماہ کے دوران تحریکِ طالبان پاکستان بھتہ خوری اور قتل کے واقعات میں ملوث نہیں رہی ۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ تحریکِ طالبان پاکستان کے عسکریت پسند پناہ گاہوں میں چھپ گئے ہیں اور پشتون علاقوں کے مقامی رہائشی اب خود کو نسبتاًمحفوظ خیال کرنے لگے ہیں۔‘‘
سکیورٹی تجزیہ کار یہ یقین رکھتے ہیں کہ جون 2014ء میں شمالی وزیرستان میں ضربِ عضب کے نام سے شروع کیے گئے فوجی آپریشن کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم متاثر ہوا ہے جس سے اس کے کراچی میں فعال دھڑوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم ایک خودمحتار سکیورٹی تجزیہ کار عصمت خان وزیر نے کہا کہ آپریشن سے قبل کراچی کے طالبان کے شمالی وزیرستان کی تحصیل میرانشاہ میں دفاتر قائم تھے جہاں سے مقامی قیادت کو ہدایات جاری کی جاتیں اور شہر کے پشتون سیاست دانوں اور کاروباری برادری کو خوف زدہ کیا جاتا۔ انہوں نے مزید کہا:’’ رینجرز کے کریک ڈائون کے بعد اب عسکریت پسند زیرِزمین چلے گئے ہیں یا پھر انہوں نے ملک کے دیگر علاقوں کا رُخ کیا ہے۔‘‘
ستمبر 2013ء میں شروع ہونے والے رینجرز کے آپریشن کا مقصد شہر سے مختلف جرائم پیشہ اور عسکریت پسند گروہوں کا صفایا کرنا تھاجن میں طالبان بھی شامل تھے جب کہ فرقہ ورانہ عسکریت پسند، لسانی و سیاسی انتہا پسند د گروہ یا جرائم پیشہ عناصربھی نشانے پر تھے۔