ہندوئوں کے علاقے جوگھی مور میں بسنے والے تقریباً 800خاندان انتہائی مفلسی میںجیون بیتا رہے ہیں۔ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں غیر مسلم سیاسی کارکن براہِ راست حصہ نہیں لے سکتے۔ غیر مسلم سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جوگھی مور کے شہری اب اپنے مسائل کے حل کے لیے پارلیمنٹ اور سٹی کونسل میں اپنے نمائندوں کو براہِ راست منتخب نہیں کرپائیں گے: نیوز لینز پاکستان کی ایک تصویر/ضیاء الرحمان
کراچی( ضیاء الرحمان سے)30برس کے سنجیش ایس دھانجا ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سیاسی کارکن ہیں‘ جب ان پر یہ منکشف ہوا کہ وہ شہر میں ہونے جارہے بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تو وہ مایوس ہوگئے۔
دھانجا نے کہا: ’’ میں گزشتہ دو برس سے انتخابات کی تیاری میں مصروف تھا اور پراعتماد تھا کہ میرے علاقے چھوٹا گیٹ کے لوگ مجھے ہی ووٹ ڈالیں گے۔‘‘ وہ کراچی میں ایک فلاحی تنظیم پاکستان ہندو سیوا کے سربراہ بھی ہیں جو ہندو کمیونٹی کے سماجی و معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ میں افسردہ ہوں کہ غیر مسلم سیاسی کارکن اس بار بلدیاتی انتخابات میں براہِ راست حصہ نہیں لے پائیں گے۔‘‘
صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات تین مرحلوں میں منعقد ہوں گے ‘ پہلے مرحلے میں 31اکتوبر کو شمالی سندھ کے آٹھ اضلاع میں الیکشن منعقد ہوں گے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں انتخابات کا انعقاد تین دسمبر کو عمل میں آئے گا۔‘‘
2001ء اور 2005ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صوبہ سندھ کے مسلم و غیر مسلم ووٹرز نے اپنے علاقے سے غیر مسلم کونسلر کے لیے مخصوص نشستوں پر امیدواروں کوبراہِ راست اپنے علاقے سے منتخب کیا تھا۔
لیکن حالیہ بلدیاتی نظام میں ایک چیئرپرسن، وائس چیئرپرسن اور ہر یونین کونسل ( دیہی علاقوں میں) اور یونین کمیٹی ( شہری علاقوں میں) کے لیے چار کونسلر منتخب کیے جائیں گے۔ اس بار ووٹرز ان چھ نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے کمیٹی اور کونسل کی سطح پر دو ووٹ ڈالیں گے جو کامیابی حاصل کرنے کے بعد مخصوص نشستوں پر ایک غیر مسلم کونسلر کو منتخب کرنے کے علاوہ خواتین، نوجوانوں اور محنت کشوںکا انتخاب بھی عمل میں لائیں گے جنہیں متعلقہ جماعتوں کی قیادت منتخب کرے گی۔
سندھ اسمبلی نے 12اگست کو’’ سندھ لوکل گورنمنٹ (تیسری ترمیم) بل 2015ء‘‘منظور کیا جس میں دیگر ترامیم کے علاوہ ووٹنگ کے حوالے سے نئے قوانین متعارف کروائے گئے تھے جن کے تحت اب صرف چیئرپرسن، وائس چیئرپرسن اور جنرل کونسلرز ہی براہِ راست منتخب ہوں گے۔
صوبہ سندھ میںغیر مسلموں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے جن میں ہندو، احمدی اور مسیحی کمیونٹی شامل ہے۔ علاوہ ازیں سکھ اور پارسی مذاہب کی ایک قلیل تعداد بھی صوبے میں بستی ہے ۔ہندوئوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم پاکستان ہندو سیوا دعویٰ کرتی ہے کہ اگرچہ کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کیوں کہ ملک میں 1998ء کے بعد سے کوئی مردم شماری نہیں ہوئی ، ایک اندازے کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی میں ہندوئوں کا تناسب 5.5فی صد ہے جن میں سے 93.33فی صد سندھ میں آباد ہیں۔
ایک مؤقر انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کی 8اپریل 2013ء کی اشاعت کے مطابق، جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا تھا، ملک میں آباد غیر مسلم ووٹرز کی سب سے بڑی شرح ہندوئوں کی ہے جن کے 14 لاکھ ووٹ جب کہ مسیحی آبادی کے 12لاکھ 40ہزار ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں احمدیوںکے 115966، سکھوں کے 5934، پارسیوں کے 3650، بدھ مت کے پیروکاروں کے 1452اور یہودیوں کے 809ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔
مسیحی کمیونٹی کے رہنما مائیکل جاوید سندھ اسمبلی کے سابق رُکن ہیں اور کراچی سے چار بار براہِ راست انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ غیر مسلم کارکنوں، جو پہلے ہی اپنا دہرا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں ، ان کو اس بار یہ تک اجازت نہیں دی گئی کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں اپنے امیدوار کو انتخابی میدان میں اتار سکیں۔
1999ء میں جب سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف نے منتخب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تواس وقت تک عام انتخابات میں غیر مسلموں کو دہرا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کا حق حاصل تھا جس کے باعث وہ جنرل نشستوں پر نہ صرف مسلمان امیدوار کو ووٹ ڈالتے بلکہ غیر مسلم امیدوار کو بھی ووٹ دیتے۔
لیکن حالیہ عام انتخابات میں غیر مسلم امیدوار براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے منتخب نہیں ہوں گے۔ مائیکل جاوید کانیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا:’’ اب مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی مسلمان قیادت مخصوص نشستوں پر غیر مسلم رہنمائوں کو نامزد کرے گی جس کے باعث ملک بھر میں بسنے والے غیر مسلم اپنے امیدوار کے چنائو کے حوالے سے ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہوگئے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ سندھ میں غیر مسلموں کو محلے کی سطح پر ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔
جداگانہ انتخابی نظام ختم کیے جانے کے باعث غیر مسلم امیدوار مذہبی جماعتوں میں شامل ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں جن میں اسلام پسند پارٹیاں بھی شامل ہیں‘ حقیقت تو یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات ہوں یا پھر عام انتخابات‘ ان امیدواروں کا اہم ترین مقصد مخصوص نشستوں کے لیے ٹکٹ حاصل کرنا ہوتاہے۔
غیر مسلموں کے حقوق کے کے لیے سرگرم کارکنوں نے کہا کہ ان کی کمیونٹی کے رہنماء اب مسلم اکثریتی سیاسی جماعتوں سے مخصوص نشستوں پر ٹکٹ جاری کرنے کا تقاضا کریں گے۔ عام انتخابات کی طرح صاحبِ ثروت اور اثرورسوخ کے حامل غیر مسلم رہنما اِن جماعتوں سے مخصوص نشستوں کے لیے ٹکٹیں خریدیں گے جو غیر مسلم آبادی اور ان کے علاقوں کے مسائل حل کرنے کی جانب توجہ نہیں دیں گے۔
کراچی کے ہندو اکثریتی مضافاتی علاقے جوگھی مور میں تقریباً 800 خاندان انتہائی مفلسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ رہائشیوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ہے اور نہ ہی علاقے میں سیوریج سسٹم، سکول اور ڈسپنسریاں قائم کی جاسکی ہیں۔
سنجیش ایس دھانجا نے کہا کہ جوگھی موڑ کی طرح غیر مسلموں کی ہر آبادی کواسی نوعیت کے مسائل درپیش ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی کمیونٹی کے ارکان کو براہِ راست منتخب کرکے پارلیمنٹ یا سٹی کونسل کا حصہ نہیں بناسکتے جو بعدازاںشہری مسائل حل کریں ۔ یوں غیر مسلم ارکانِ پارلیمان اپنی کمیونٹی کے ووٹ حاصل کرنے کی بجائے دولت کی چمک پر پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔‘‘
سکھوں کی ایک ملک گیر جماعت پاکستان سکھ کونسل کے سربراہ سردار رمیش سنگھ نے کہا کہ ان کی جماعت نے صوبے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم دہرا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کا حق واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے باعث نہ صرف اپنی کمیونٹی کے امیدواروں کو منتخب کریں گے بلکہ مسلم امیدواروں کو منتخب کرنے کا حق بھی حاصل ہوجائے گا۔‘‘
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر، کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کا عمل آسان اور تیز تر بنانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئے ضابطے تشکیل دیے ہیں جن کے تحت یونین کونسل یاکمیٹی میں منتخب ہونے والے چھ ارکان سے کہا گیا ہے کہ وہ غیر مسلم کونسلر منتخب کرنے کے علاوہ وومن، نوجوان اور لیبر کونسلر کا انتخاب بھی عمل میں لائیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ گزشتہ دو بلدیاتی انتخابات میں ووٹرز کو اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے میں مشکلات کاسا منا کرنا پڑا تھا۔‘‘