بلوچستان : طویل المدتی منصوبے شروع کرنے کی بجائے عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی ضرورت

0
4058

: Photo By News Lens Pakistan / Matiullah Achakzai

کوئٹہ ( صفی اللہ شاہوانی سے) پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں پاک چین راہداری کے منصوبے پر 46ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری طویل المدتی تناظر میں ترقی کے نئے در وا کرنے کی ایک علامت بن کر ابھری ہے جس کے لیے صوبہ طویل عرصہ سے کوشاں رہا ہے۔لیکن صوبے کے باسی اور سیاست دان اب قلیل المدتی ضروریات کی تکمیل کے خواہاں ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم) کے ترجمان آغا حسن بلوچ نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ گوادر کے شہریوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے اور ان کی اراضی پر قبضے کیے جارہے ہیں جو اثر و رسوخ کے حامل لوگوں کو الاٹ کر دی جاتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری بلوچ عوام کی ضرورتوں کے مقابل فی الوقت ثانوی حیثیت رکھتی ہے‘ حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک مقامی آبادی کو بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جاتی ‘ ان کے لیے اقتصادی راہداری کے منصوبے میں کوئی کشش نہیں ہے۔‘‘
پاکستان اور چین کے درمیان اس میگا پراجیکٹ پر اس وقت دستخط ہوئے جب چین کے صدر ژی جن پنگ اپریل 2015ء میں پاکستان کے دورہ پر آئے۔ پاک چین اقتصادی راہداری جنوب مغربی پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو چین کے شمال مغربی علاقے ژنجیانگ سے سڑکوں کے نیٹ ورک، ریلوے اور آئل و گیس کی ترسیل کے لیے نصب کی جانے والی پائپ لائنوں کے ذریعے منسلک کرے گی۔
یہ راہداری چین کی 21ویں صدی کی مجوزہ شاہراہِ ریشم کی توسیع ہے جسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو( او بی او آر) کا نام دیا گیا ہے‘ یہ ایک ترقیاتی حکمتِ عملی ہے جس میں بنیادی طور پر یوریشیا کے ممالک کے مابین رابطوں اور تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔2012ء تک یوریشیا میں 93آزاد ممالک شامل تھے جن میں یورپ کے تمام 48( جرائز پر مشتمل ریاستیں سائپرس، آئس لینڈ، آئرلینڈ اور برطانیہ بھی ) شامل ہیں۔مشرقِ وسطیٰ کے 17، ایشیاء کے 27( جن میں انڈونیشیا، ملائشیا، جاپان، فلپائن اور تائیوان) اور ایک نوآزاد ملک ،جسے اکثر و بیش تر اوقیانوسیہ کا حصہ تصور کیا جاتا ہے، مشرقی تیمور بھی شامل ہے۔ چناں چہ دنیا کے مجموعی طور پر 196آزاد ممالک میں سے تقریباً نصف یوریشیا میں ہیں۔ اس خطے میں دنیا کی 71فی صد آبادی بستی ہے جو تقریباً پانچ ارب بنتی ہے۔ 
یہ چین کی جانب سے سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری ہے‘ اس منصوبے کے باعث چین کو وسائل سے مالامال مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیاء تک تجارتی رسائی حاصل ہوجائے گی۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ منصوبہ تین برس کے عرصہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔ خطے میں اسے ’’تذویراتی تبدیلی‘‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے چین کے قریبی اتحادی یعنی پاکستان کے نہ صرف وسائل میں اضافہ ہوگا بلکہ یہ ایک مضبوط ملک کے طور پربھی ابھرے گا کیوں کہ راہداری کا داخلی راستہ پاکستان میں ہوگا۔
اپریل میں معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد پاکستانی پالیسی کے سیاسی، سماجی و معاشی بیانیے میں ہلچل مچ گئی تھی۔ پنجاب کے کردار پراس وقت تنازع پیدا ہوگیا،جو آبادی اور وسائل کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے،کہ اس نے چھوٹے صوبوں کی قیمت پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے راہداری کے روٹ میں مبینہ طور پر تبدیلی کی ہے جس کے باعث بالخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی ‘ ان صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے روٹ اور اس میں مجوزہ تبدیلی پر تحفظات کا اظہار کیا چناں چہ کوئٹہ اور اسلام آباد میں بالترتیب آل پارٹیز کانفرنسوں کاانعقاد عمل میں آیا۔
اپوزیشن رہنمااور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان) کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع کہتے ہیں کہ ان کے پاک چین اقتصادی راہداری پر تحفظات ہنوز برقرار ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ وفاقی حکومت نے راہداری کی تعمیر کے لیے 2015-16ء کے بجٹ میں کوئی فنڈز مختص نہیں کیے۔ وفاقی حکومت کو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کوئٹہ میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں کیے گئے وعدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔وفاقی حکومت نے پرانے کے بجائے نئے روٹ پر غور شروع کر دیا ہے۔‘‘
میڈیا میں آنے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق چینی صدر کے دورۂ پاکستان کے تحت مختلف شعبوں میں 51معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں انفراسٹرکچر، بجلی کی پیداوار، زراعت، تعلیم، ٹیلی کمیونیکیشن اور تحقیقی منصوبے شامل ہیں۔ ان 51معاہدوں میں سے 30کا تعلق تذویراتی راہداری سے ہے جسے دونوں ملکوں کے درمیان 1979ء میں تعمیر ہونے والی قراقرم ہائی وے کے بعدرابطوں میں توسیع کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا جارہا ہے۔ 
مجوزہ راہداری کے مکمل ہونے کے بعد چین کے مشرقِ وسطیٰ سے توانائی کی درآمدات کے روٹ کی طوالت 12ہزار کلومیٹرتک کم ہوجائے گا۔ اس راہداری کی تعمیر سے چین کے غیر ترقی یافتہ مشرقِ بعید کا خطہ بحیرۂ عرب میں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں گہرے پانیوں کی بندرگاہ گوادر سے منسلک ہوجائے گا۔ صوبہ طویل عرصہ سے اپنے وسائل پر اختیار دیے جانے کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور اب وہ گوادر بندرگاہ کی ترقی کے اس عمل کو مرکزکی جانب سے تذویراتی اہمیت کی حامل بندرگاہ پر قبضہ کی سازش سے تعبیر کررہا ہے۔
آغا حسن بلوچ کہتے ہیں:’’ اگر وفاقی حکومت بلوچ عوام کے ساتھ مخلص ہے تو گوادر پورٹ اتھارٹی صوبے کو سونپ دی جائے جب کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اتھارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ غیر مقامی آبادی کی ایک بڑی تعدادکے صوبے میں آباد ہونے کے باعث مقامی بلوچ آبادی خوف زدہ ہے کہ وہ اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔
آغا حسن بلوچ نے مزید کہا:’’اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ غیر مقامی آبادی کو بلوچستان کے علاقوں میں ووٹر لسٹ میں رجسٹرنہ کیے جانے کے علاوہ مقامی سرٹفیکیٹ، ڈومیسائل اور قومی شناختی کارڈ جاری نہ جاری کیے جائیں تو اس صورت میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بلوچوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔‘‘
جمعیت علمائے اسلام ( فضل الرحمان) کے رہنما مولانا عبدالواسع نے کہا کہ اقتصادی راہداری اور گوادر بندرگاہ کے ترقیاتی منصوبوں کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے پر عملدرآمد سے خطے میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا:’’ اقتصادی راہداری ترقی کے ایک نئے عہد کی بنیادثابت ہوگی جس کے بعد کراچی ، اسلام آباد کی طرز کے بڑے شہروں کے علاوہ فیکٹریاں قائم ہوں گی ، یوں بلوچ اور پشتون علاقے ایک معاشی مرکز میں تبدیل ہوجائیں گے اور اس سے ظاہر ہے کہ معیارِ زندگی میں بہتری آئے گی۔‘‘
مولاناعبدالواسع نے مزید کہا کہ راہداری پر کام شروع کرنے سے قبل گوادر کی مقامی آبادی کے تحفظات دور کیے جائیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے منسلک رُکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زائری نے کہا کہ ان کی جماعت اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہنوز تحفظات کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا:’’ وفاقی حکومت نے پرانے روٹ کے لیے فنڈز مختص نہیں کیے جس سے صوبائی حکومت یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوئی ہے کہ وفاق نئے روٹ پر کام کرنے کے بارے میں غور کررہا ہے۔‘‘
نصراللہ زائری نے مزید کہا:’’ وزیراعظم نے کوئٹہ میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں وعدہ کیا تھا کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کا مقصد بلوچستان کی ترقی اور اس کے عوام کی خوش حالی ہیں۔ وفاقی حکومت کا اس نوعیت کا طرزِ عمل بلوچ اور پشتون عوام کے حق میں نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے کہاکہ اگر اقتصادی راہداری کے سابقہ روٹ کو برقرار رکھا جاتا ہے تو اس سے بلوچستان سے کاشغر تک پھیلے ایک وسیع خطے میں انقلابی تبدیلیاں آئیں گی جب کہ وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی رابطے بڑھنے کے باعث روزگار کے مواقع بھی دستیاب ہوں گے۔ معاشی ترقی ہوگی تو معیارِ تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کا نظام بھی بہتر ہوگا۔‘‘
انہوں نے گوادر کے باسیوں کے تحفظات کو بجا قرار دیا اور کہا کہ بلوچستان میں برسرِاقتدار اتحادی حکومت مستقبل میں شروع کیے جانے والے منصوبوں کے حوالے سے گوادر کے عوام کو اعتماد میں لے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here