پاکستان بھارت کا ایک مرتبہ پھر سے جوڑ پڑ گیا ہے۔ بہت عرصے بعد دوست کولیگ کے کہنے پر لکھنے بیٹھی ہوں تو ماضی کے بہت سے دلچسپ واقعات یاد آگئے جن کی یاد میں گاہے بگاہے اپنے ٹی وی پیکجز میں تازہ کرواتی رہی ہوں۔
ایشیا کپ کا بڑا میچ آٹھ محرم الحرام کو ہونے جا رہا ہے۔ ماہ سوگ میں میچ تو ہوگا مگر اس بار جشن نہیں ہوگا۔ وزارت داخلہ نے جشن ، ہلہ گلہ یا بڑی سکرینز وغیرہ لگوانے سے منع کردیا ہے۔ بطور مسلمان ہم سبھی کا فرض ہے کہ انتہائی احترام اور سوگ والے مہینے میں ہم خود ہی ان خرافات سے باز رہیں۔
اس مقابلے میں دونوں ہمسایہ ممالک کے جذبات ہائی والٹیج پہ پہنچ جاتے ہیں۔ جسکی بنیادی وجہ شاید ہم دونوں کی ایک جیسی تاریخ ہے۔ ہمارا ایک جیسا کلچر ، رہن سہن ، زبان اور معیشت ہے۔ برصغیر میں پاک ہندوستان کی علیحدگی کے بعد سے اب تک سیاسی ، معاشرتی یا زندگی کے کسی بھی شعبے میں بس ہمیں ایک دوسرے کو ہرانا ہے۔ پھر فتح کے بعد جو عزت اور استقبال مقدربنتا ہے وہ کسی دوسرے حریف ملک کو ہرا کر نہیں مل سکتا۔ ایسی ہی نفیسات بحارتیوں کی بھی ہے۔ کسی بھی ملک سے ہار جاؤ ، لیکن پاکستان سے نہیں ورنہ اہم مقابلے کا کھلاڑی ہیرو سے زیرو بن جاتا ہے۔ اور بہت سے کرکٹ میچز میں تو پاک بھارت کے پلیئرز کے کیریئر تک داؤ پر لگ چکے ہیں۔
اب اس اہم میچ کو اہم ترین بنانیوالے میڈیا کی بات کرتے ہیں کہ کس طرح ہم میڈیا والے کھیل کو حقیقی جنگ بنا ڈالتے ہیں ۔ جب سے یو اے ای میں ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ شروع ہوا اس سے کہیں پہلے سے ہم پاکستان اور بھارت والے اپنے 19 ستمبر کو شیڈول میچ کی باتیں کرنا شروع ہوئے اور یہ باتیں میچ ختم ہونے پر بھی ختم نہیں ہوں گی ۔ بلکہ برسوں اس کے نتیجے کا چرچا رہے گا۔
اب بات کر لی جائے اعصاب شکن مقابلے کی، جسے آج تک کہا جاتا ہے کہ میدان میں وہی ٹیم فتح پاتی ہے جو پریشر کو اچھے سے کنٹرول کر لیتی ہے ۔ تو بھئی یہ دباؤ آتا کہاں سے ہے ؟ کیا دونوں طرف کی حکومتیں میچ پر جانے سے پہلے اپنے پلیئرز کو حکم دیتیں ہیں کہ اگر ہارے تو ٹیم سے باہر ورنہ جیت پر زیادہ دیر تک کھیلو گے۔ یا پھرٹیم کے کوچ اور کپتان میچ سے قبل میٹنگ میں وارننگ جاری کرتے ہوں گے ، اگر پلیئرز نے اچھا نہ کھیلا تو سمجھیں کیریئر ختم۔ کچھ پریشر آن گراؤنڈ بھی ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں کے تماشائی حریف ٹیم پر آوازیں کستیں ہیں ، یا اپنے پلیئرز کی خوبیوں کے نعرے لگاتے ہیں ، تو شاید میدان میں موجود پلیئرز کے حوصلے ڈانواں ڈول ہوجاتے ہوں گے۔
تاریخ گواہ ہے دونوں جانب کا میڈیا اپنی حد سے زیادہ ایکٹو رہا ہے، پاک بھارت جنگ ، پاک بھارت ٹاکرا ، لائن آف کرکٹ وغیرہ کے ناموں سے خصوصی ٹرانسمیشنز کیں تاکہ شائقین کے جذبات اور احساسات کو حریف ٹیم کے خلاف اتنا بڑھائیں کہ وہ اپنے اردگرد کے سارے مسائل بھول کر صرف ایک بڑے مسئلے ، ایک بڑے مقابلے کے پیچھے لگ جائے۔
میرے خیال میں پاک بھارت کرکٹ میچ ایک اچھی تفریح تو ہو سکتی ہے لیکن اس پر کٹ مر جانا ، واقعی ہی انسانیت کی توہین ہوتی ہے۔ ایسے افسوسناک واقعات کی خبریں اکثر ہمسایہ ملک سے میچ کے بعد ملتیں رہی ہیں۔
پاک بھارت کئی عشروں سے متعدد میچز کھیل چکے ہیں۔ جس دوران جان کی بازی لگا کر مقابلہ کرنے کی سوچ اور روایتی حریف پر غالب آنے کی دلی خواہش کئی مرتبہ میدان میں کافی تلخ واقعات کی وجہ بھی بن چکی ہے۔
ورلڈ کپ 1992، لیجنڈ بیٹسمین جاوید میانداد کو بھارتی بولر کرن مورے کی بار بار کی اپیلوں نے اتنا ناراض کیا کہ ایک گیند پر تومورے نے رن آؤٹ کی کوشش میں وکٹوں کی بیلز گرادیں۔ جس پر میانداد خود کو کنٹرول نہ کر پائے اور شدید غصے میں اسکی نقل کرتے بار بار ہوا میں اچھلنا شروع کر دیا۔ یہ واقعہ مضحکہ خیز واقعات میں سے ایک تھا۔
عالمی کپ 1996، بنگلور میں ہونیوالے کوارٹر فائنل میں پاکستانی اوپنر عامر سہیل کی جارحانہ بیٹنگ بھارتی بولر وینکاتیش پرشاد کو پسند نہ آئی۔ عامر نے ففٹی مکمل ہونے کے بعد پرشاد کو باؤنڈری کیطرف اشارہ کیا کہ گیند اٹھاکر لاؤ ،اسی شاٹ کو دوبارہ کھیلنے کی کوشش کی لیکن بولڈ ہو گئے۔ پرشاد نے جواب میں گھر جاؤ حرا۔۔ گالی دیکر بدلہ چکایا تھا۔
2007 کے ون ڈے میچ میں شاہد آفریدی اور بھارتی اوپنر گوتم گمبھیر اتنا الجھے کہ امپائرز بیچ بچاؤ نہ کراتے تو بات ہاتھا پائی تک پہنچ چکی ہوتی۔ گوتم رن لینے بھاگے تو آفریدی سے ٹکرا کر گالم گلوچ کرنے لگے۔ تاہم اس وقت تو بات بد زبانی کے بعد ختم ہو گئی لیکن گوتم کے دل میں پاکستان کے خلاف چھپی نفرت آج بھی انکے انٹرویوز میں دیکھی، پڑھی اور سنی جاسکتی ہے۔
ایشیا کپ 2010 کے میچ میں اسی گوتم گمبھیر کا جھگڑا وکٹ کیپر کامران اکمل سے ہو گیا۔ کامران کی گمبھیر کو آؤٹ کی اپیل اتنی ناگوار گزری کہ جذباتی ہو کر ماں بہن کو میدان میں لے آئے ، پانی کے وقفے پر دونوں کھلاڑی ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے۔ تاہم دھونی اور دیگر پلیئرز نے بیچ بچاوّ کروایا۔
اسی ٹورنامنٹ میں بھارتی ہربھجن سنگھ کا پھڈا فاسٹ بولر شعیب اختر سے ہو گیا۔ ایک دوسرے کو دل کھول کر پنجابی زبان میں گالیاں دیں۔ میچ کی آخری گیند پر ہربھجن نے شعیب اختر کو بڑا چھکا لگایا توجیت کی خوشی میں بھارتی ڈریسنگ روم تقریبنا پاگل ہو گیا تھا۔
پرانی تلخ یادیں ایک طرف، ابھی جاری ایشیا کپ میں ہیں تو چھ ٹیمیں ، لیکن ہر جانب چرچے ہیں پاک بھارت میچز کے۔ ایونٹ میں دونوں ٹیموں کا دو بار سامنا ہونیوالا ہے۔ اگر دونوں فائنل میں پہنچ گئے تو پھر تیسرا میچ بھی شائقین کا منتظر ہو گا۔
پاک بھارت ون ڈے کرکٹ ریکارڈز پر نظر ڈالیں تو دونوں ٹیمیں 129 بار مدمقابل ہوئیں۔ جس میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا۔
73 مقابلوں میں گرین شرٹس فتحیاب ہوئیں ۔ 52 مرتبہ بھارت کو کامیابی ملی جبکہ چار میچز بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہوئے۔
انکا حالیہ ترین مقابلہ چیمپئنز ٹرافی فائنل میچ تھا ۔ جسکے ہیرو بنے فخر زمان، جنہوں نے سنچری بنا کر ٹیم کو چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس بار بھی دونوں جانب سے پلیئرز کو ہیرو بننے کا شدت سے انتظار ہے۔