پشاور: صوبائی حکومت کے پشاور کو صاف اور سرسبز بنانے کے نعروں کے باوجود اندرون شہر سمیت ہر علاقے میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر جابجانظر آتے ہیں جیسا کہ مقامی شہریوں کے مطابق صفائی کے ذمہ دار ادارے کی توجہ صرف پوش علاقوں پر مرتکز ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت کی ملکیت خودمختارکارپوریٹ فرم واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی) کو قائم ہوئے دو برس ہوچکے ہیں لیکن شہری اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
پشاور کے علاقے خوشحال باغ کے رہائشی کاشف خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ گلیوں اور پلاٹوں میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں کیوں کہ کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے کوئی مقام مخصوص نہیں کیا گیا اور نہ ہی ڈبلیو ایس ایس پی کے اہلکار انہیں اٹھانے کی زحمت کرتے ہیں۔‘‘
مقامی رہائشی کہتے ہیں کہ گلبہار، دالازک روڈ، وارسک روڈ، اندرون شہر اور پشاور کے دیگرعلاقوں میں کوڑا کرکٹ سے بھرے ہوئے کنٹینر، پلاٹوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور ابلتی ہوئی نالیاں جابجا نظر آتی ہیں۔
پشاور کے علاقے نشترآباد کے رہائشی خالد حسین کہتے ہیں:’’ڈبلیو ایس ایس پی کی زیادہ توجہ پوش علاقوں اور مرکزی شاہرائوں پر مرکوز ہے، دیگر علاقوں میں اس کی کارکردگی صفر ہے۔‘‘
ڈبلیو ایس ایس پی کو صوبائی حکومت نے کارپوریٹ فرم کے طورپر قائم کیا تھا جوشہر میں صفائی ستھرائی ، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے اور صاف پانی کی فراہمی کی ذمہ دار ہے۔ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، یونیورسٹی ٹائون کمیٹی اور میونسپل کارپوریشن کا عملہ، جو صفائی ستھرائی اور کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے اپنے اپنے علاقوں میں کام کرتا تھا، ڈبلیو ایس ایس پی میں ضم کردیا گیا۔
خالد حسین کہتے ہیں کہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیرعلاقے میں بدبو اور بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ لوگ اس مسئلے سے چھٹکارا پانے اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے مزید جگہ پیدا کرنے کے لیے ڈھیر کو آگ لگادیتے ہیں لیکن یہ آتشزدگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ بنتی ہے جو بالآخر لوگوں کے لیے ضرر رساں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گلیوں کی اکثریت میں نالیاں ابل رہی ہیں اور پانی گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہوجاتا ہے لیکن ڈبلیو ایس ایس پی کے کارکنوں نے شکایات کے باوجود علاقے کا دورہ نہیں کیا۔ رابطہ کرنے پر ڈبلیو ایس ایس پی کے افسرِ تعلقاتِ عامہ جاوید علی نے کہا کہ وہ اس صورتِ حال کے بارے میں لاعلم ہیں۔ انہوں نے کہا:’’یہ ناممکن ہے کہ اگر ایک علاقہ ڈبلیو ایس ایس پی کے دائرہ کار میں آتا ہو اور اس کا عملہ وہاں پر کام نہ کرے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ 45یونین کونسلوں سے روزانہ کی بنیاد پر76فیصد کوڑا کرکٹ اٹھایا جارہا ہے جیسا کہ شہر روزانہ 810ٹن کوڑا کرکٹ پیدا کرتا ہے۔ دو برس قبل (ڈبلیو ایس ایس پی کے قائم ہونے سے پہلے) 58فی صد سے کم کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا جارہا تھا۔ جاوید علی کا مزید کہنا تھا:’’ان علاقوں سے اب تک 55ہزار ٹن پرانا، مستقل کوڑا کرکٹ ہٹایا جاچکا ہے جہاں بہت زیادہ ڈھیر لگ چکا تھا۔‘‘
ڈبلیو ایس ایس پی کے چیف ایگزیکٹو افسر محمد نعیم نے کہا کہ 45سو کارکن 182گاڑیوں کے ساتھ کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے اور صفائی ستھرائی کا کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈبلیوایس ایس پی کے افتتاح کے ساتھ ہی رنگ روڈ، وارسک روڈ، باڑا روڈ اور پشاور سے گزرنے والی مختلف نہروں کی صفائی کے لیے نئی مشینری خریدی گئی اور عملہ بھرتی کیا گیا۔
محمد نعیم نے کہا کہ خدمات کو بہتر بنانے کے لیے ڈبلیو ایس ایس پی 250مزید کارکن بھرتی کررہا ہے اور 22ٹن اہلیت کے حامل کمپیکٹر، مختلف اہلیتوں کے حامل کوڑا کرکٹ کے کنٹینر اور چھوٹے ڈمپر وقتاً فوقتاً فلیٹ میں شامل کئے جاتے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام 45یونین کونسلوں کو چار زونوں(اے ، بی، سی ، ڈی) میں تقسیم کیا گیا ہے اور شکایات پر بروقت کارروائی کرنے کے لیے ہر زون میں شکایات سیل قائم ہے۔
تاہم خالد حسین نے کہا کہ انہوں نے ڈبلیو ایس ایس پی کے دیے گئے نمبر پر متعدد بار شکایت درج کروائی ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا:’’ میں نے جب کبھی شکایت کی ، مجھ سے یہ کہا گیا کہ مسئلہ چند گھنٹوں میں حل کردیا جائے گا لیکن ایک بار بھی کوئی کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے نہیں آیا۔‘‘
محمد نعیم نے کہا کہ ہماری غیر معمولی کارکردگی کے باعث وہ علاقے بھی، جو ڈبلیو ایس ایس پی کے دائرہ کار میں نہیں آتے، یہ درخواست کررہے ہیں کہ ہم ان کے علاقوں میں کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری سنبھال لیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ڈبلیو ایس ایس پی کی کارکردگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت ایبٹ آباد اور مردان میں بھی اسی طرح کا ادارہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔‘‘