لاہور: انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان میں تقریباً93فی صد خواتین جنسی ہراساں کیے جانے کے مختلف مظاہر کا سامنا کرتی ہیں لیکن ان کی اکثریت شکایت درج کروانے کے حوالے سے خوف زدہ ہوتی ہے کیوں کہ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
2010ء میں دفاتر میں ہراساں کیے جانے کے واقعات کے انسداد اور تحفظِ نسواں کے لیے قانون کی منظوری کے بعد سے پنجاب میںصرف79خواتین نے ہی مردوں کے خلاف خاتون محتسب کے دفتر میں درخواستیں جمع کروائیں۔ خاتون محتسب پنجاب کے دفتر سے منسلک قانونی مشیر عاصم علی صادق نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ 44شکایات نپٹائی جاچکی ہیں اور 35پر کارروائی جاری ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ 14مجرموں کو سزا سنائی جاچکی ہے اور آٹھ کو خبردار کیا گیا جب کہ 19شکایات واپس لے لی گئیں کیوں کہ شکایت کنندگان نے سمجھوتہ کرلیا تھا۔ تین شکایت کنندگان نے کارروائی نہیں کی جنہیں قانون کے تحت خارج کردیاگیا۔
حقوقِ نسواں کی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون سازی ایک سنگِ میل ہے لیکن وزارتِ قانون اور خاتون محتسب کے دفتر کو خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ دفاتر کا ماحول خواتین کے لیے موزوں نہیں ہے اور کام کی جگہوں پر عموماً ملازمت پیشہ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات ہوتے ہیں۔‘‘
غیرسرکاری تنظیم آشا (Alliance Against Sexual Harassment AASHA)کی جانب سے 2009ء میں کی جانے والی تازہ ترین تحقیق یہ منکشف کرتی ہے کہ تقریباً93فی صد خواتین نجی و سرکاری اداروں میں جنسی ہراساں کیے جانے کے مختلف مظاہر کا سامنا کرتی ہیں۔
وزارتِ منصوبہ بندی و ترقی سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی آبادی کا 51فی صد خواتین پر مشتمل ہے اور تقریباً22.7فی صد خواتین افرادی قوت کا حصہ ہیں۔
2012ء کے انڈیکس(انسانی حقوق کی رپورٹ برائے ہیومن ڈویلپمنٹ2012ئ) میں پاکستان صنفی ناہمواری میں 148ملکوں میں سے 123ویں نمبر پر ہے۔
عورت فائونڈیشن لاہور کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ممتاز مغل نے کہا کہ نجی شعبہ میں کام کا ماحول کچھ بہتر ہے لیکن سرکاری دفاتر میں حالات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ سرکاری دفاتر کی خواتین ملازمین کی اکثریت کام کی جگہ پر جنسی ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سامناکرتی ہے اور حتیٰ کہ وہ ان کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرتیں۔‘‘
عاصم علی صادق نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سماج میں ایسے قوانین کا نفاذ مشکل ہے۔ خواتین بھی ایسے معاملا ت میں شامل ہونے سے گریز کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ عموماً تعلیم یافتہ خواتین شکایت کرتی ہیں لیکن پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی کم تعلیم یافتہ خواتین سماج سے خوف زدہ ہوتی ہیں۔وہ ہراساں کیے جانے سے جڑی بدنامی کے باعث کارروائی نہیں کرتیں۔‘‘
پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ سائیکالوجی کی ڈائریکٹر رخسانہ کوثر کا کہنا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین اپنی ملازمت کھو جانے کے ڈر کے باعث ہراساں کیے جانے کے واقعات کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے انٹرویو میں کہا:’’ خواتین کو شکایت جمع کروانے کے بعد بھی اسی انتظامیہ کی ماتحتی میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اداروں میں قائم کی گئی کمیٹیاں دفاتر میں ہراساں کیے جانے کے واقعات پر کارروائی کے لیے مناسب طورپر تربیت یافتہ نہیں ہیں۔‘‘
رخسانہ کوثر نے تجویز کیا:’’ وہ خواتین جو جنسی طور پر ہراساں ہوتی ہیںاور شکایت درج نہیں کرواپاتیں، انہیں سنجیدہ نوعیت کے نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کی اکثریت ذہنی تنائو کا شکار ہوجاتی ہے۔ بہت سے معاملات میں متاثرہ خواتین کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
نادیہ علی( شناخت محفوظ رکھنے کے لیے نام تبدیل کیا گیا ہے) نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ لاہور میں غیرسرکاری ادارے میں فیلڈ ورکر کے طور پر کام کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا:’’ ایک روز جب میں فیلڈ ورک سے گھر واپس آئی، میرے ڈائریکٹر نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور یہ کہتے ہوئے انتظامی عہدے کی پیشکش کی کہ فیلڈ ورک بہت مشکل ہے۔‘‘
نادیہ علی نے کہا:’’ میں اپنی ترقی کے بارے میں سن کر خوش ہوگئی لیکن اس کے فوری بعد ڈائریکٹر نے میرے اعضائے مخصوصہ چھیڑنا شروع کردیے۔ میں نے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے گرفت میں لے لیا۔ میں کسی حد تک محفوظ رہی اور بہ مشکل بچنے میں کامیاب ہوئی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر نے میری کارکردگی کے بارے میں اسلام آباد میں ہیڈ آفس میں منفی رپورٹ ارسال کردی۔’ ’ میں نے شکایت کی لیکن وہ بے نتیجہ رہی اور میں نے استعفیٰ دے دیا۔‘‘
نادیہ علی نے انکشاف کیاکہ ان کے دفتر میں کوئی انکوائری تشکیل کمیٹی نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے آنسو بہاتے ہوئے کہا:’’ میں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اور ہنوز بے روزگار ہوں۔ میں کوئی اور ملازمت تلاش کرنے کے حوالے سے خوف زدہ ہوچکی ہوں۔ اس واقعہ کے باعث میں اعتماد سے محروم ہوگئی ہوں۔‘‘
عاصم علی صادق نے کہا کہ قانون اب تک لاہور میں بھی درست طورپر نافذ نہیں ہوا کیوں کہ آجروں کی اکثریت نے اپنے دفاتر میں انکوائری کمیٹیاں تشکیل نہیں دیں ، اس کے باوجود کہ قانون کے تحت ایسا کرناضروری ہے۔
دفترخاتون محتسب پنجاب کے سیکرٹری ڈاکٹر احمد افنان نے کہا:’’ ہم انکوائری کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے بارہا نوٹیفیکیشن جاری کرچکے ہیں۔اگر کوئی ادارہ قانون پر عمل نہیں کرتا تو اسے 50ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے جاری کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جنوری 2012ء سے 15ستمبر2015ء تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 8,648واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 268جنسی حملوں یا ہراساں کیے جانے سے متعلق تھے۔
ممتاز مغل نے کہا:’’ خواتین اب تک اس مسئلے کے بارے میں پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، حتیٰ کہ حکومت بھی اس کے حل میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ خاتون محتسب کا دفتر قائم کردینا ہی کافی نہیں ہے۔ فنڈز کی ضرورت بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر احمد افنان نے کہا:’’ دفتر خاتون محتسب پنجاب نے خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے کے قانون سے متعلق آگاہی دینے کے لیئے حال ہی میںمیڈیا پر ایک بڑی عوامی مہم شروع کی تھی ۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’ ہم نے حکومتِ پنجاب سے مہم کے لیے تین کروڑ20لاکھ روپے مانگے تھے لیکن صرف ڈیڑھ کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ہم عملے کے چار ارکان اور 22لاکھ 10ہزار روپے سالانہ بجٹ کے ساتھ اپنی سی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر رخسانہ کوثر نے کہا کہ اس جدید دور میں وہ خواتین،جو مردوں کے شانہ بشانہ معاشی دوڑ میں حصہ لیتی ہیں، انہیں ایک تجارتی جنس تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ہراساں ہونے والی عورت کو برے کردار کی حامل تصور کیا جاتا ہے اور یہ خواتین کے شکایات واپس لینے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔‘‘