کراچی: کراچی میں گزشتہ سال آنے والی گرمی کی لہر کے بعد رواں سال صوبائی حکومت نے شہر میں کئی مقامات پر شہریوں کے لئےشیلٹر اور پانی کی سبیلوں کا بندوبست تو کیا، لیکن پرندوں کو بھول گئے ۔ حکومت کی اسی لا پرواہی کو دیکھتے ہوئے، شہر کے کچھ طلبہ نے ان پرندوں کو دانہ پانی فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھا لی۔ اور بیٹ دا ہیٹ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کر دیا۔
‘پیور پاکستان’ کے نام سے ایک فلاحی تنظیم چلا نے والے ستائیس سالہ جنید کمال اس مہم کے سربراہ ہیں۔
“میرے کچھ دوستوں کے گھروں میں گزشتہ برس پرندوں کی اموات ہوئیں، ڈاکٹر نے بتایا کہ ان پرندوں کوہیٹ اسٹروک ہوا ہے۔ بس اسی سے خیال آیا کہ ان بے زبان پرندوں کے لئے کچھ کیا جائے۔”
جنید نے این ای ڈی یونیورسٹی، سرسید یونیورسٹی اور بالخصوص کراچی یونیورسٹی کے تیس سے زائد طلبہ کے ساتھ مل کر یہ مہم شروع کی جس کے لیے چندہ بھی اکٹھا کیا گیا۔اس مہم کا آغاز رواں سال 21 مئی کو ہوا۔ ابتدائی طور یہ مہم عائشہ منزل، ملیر، نصیر آباد، گلشن اقبال اور دیگر علاقوں میں چلائی گئی۔
‘بیٹ داہیٹ’ مہم کو سوشل میڈیا پر بھی پھیلایا گیا جس کا بڑے پیمانے پر مثبت ردعمل سامنے آیا، اس مہم میں شامل آرگنائزر اور طالبہ حافظہ حمنی کاکہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر دیکھنے کے بعد وہ اور ان کے دیگر دوست بھی اس مہم کاحصہ بن گئے۔
حفیسہ ہمنا نے نیوز لینز پاکستان کو بتایا، “اب اس مہم کا دائرہ اسکول اور کالجز تک بھی بڑھایا جارہا ہے تاکہ تاکہ مزید لوگ اس کار خیر کا حصہ بن سکیں۔”
اس مہم سے قبل بھی انفرادی طور پر جنگلی پرندوں کے دانے پانی کا انتظام کیا جاتا رہا ہے، شہر کے وسط میں موجود مزار قائد کے سامنے اور عقب میں واقع چوراہوں پر بڑی تعداد میں پرندے خاص طور پر کبوتر نظرآتے ہیں۔
ان چوراہوں پر ریڑھی والے موجود رہتے ہیں جن کے پاس باجرا اور کنکی دانہ موجودہ ہوتا ہے، لوگ یہاں آکر رکتے ہیں اور اپنی جیب سے دانہ خرید کر ان پرندوں کو دیتے ہیں۔ مزار قائد چوک پر موجود فرحان احمد نامی ایک شخص نےنیوزلینز پاکستان کی نمائندہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ
“ہم رب کے دیے گئےرزق میں سے ان پرندوں کاحصہ بھی نکالتےہیں کیوں کہ گرمی میں ان کو بھی پیاس اور بھوک لگتی ہے۔”
اردو سائنس کالج کے قریب چورنگی پر ریڑھی بان فضل پندرہ سال سے یہاں پرندوں کے لیے دانا فروخت کر رہے ہیں،ان کے بقول
“روزانہ دو سوکے قریب لوگ آجاتے ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے۔کوئی بیس، تیس تو کوئی سو دوسو روپے کا دانہ خریدتا ہے۔”
حکومت سندھ محکمہ جنگلی حیات وحیوانات کی جانب سے صوبہ میں موجود آبی پرندوں کی اقسام پر تو سروے کیا گیا ہے لیکن خشکی کے پرندوں کی تعداد اور اقسام کے حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔۔
محکمہ جنگلی حیات وحیوانات سندھ کے گیم آفیسر رشید خان نے نیوزلینزکو بتایا کہ شہروں میں درختوں کی کٹائی ، فضائی آلودگی اور شورشرابے کی وجہ سے پرندے کم ہوگئے ہیں۔ “وہ پرندے جو پنجروں میں بند ہوتے ہیں وہ گرمی سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ آزاد پرندے مقامی سطح پر ہجرت کرکے دوسرے شہروں کی جانب چلے جاتے ہیں۔”
گرمی میں پرندوں کیلئے دانا اور بالخصوص پانی کا انتظام کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سال تو ایسا کچھ نہیں کیا گیا لیکن مستقبل میں اس پر کام کیا جائے گا اس کے علاوہ موٹر وے اور نینشل ہائی وے پر درخت لگائے جا رہے ہیں۔
شہر کی کئی اہم سڑکوں کے کناروں سے تناور درخت رات کی تاریکی میں غائب ہوگئے، جب معاملہ عدالت میں پہنچا تو میونسپل کارپوریشن نے بتایا کہ شاہراہ فیصل سے اشتہاری بورڈز آویزاں کرنے کی غرض سے درخت کاٹے گئے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں ان منفی اقدامات کی وجہ سے پرندے آشیانوں سے محروم ہورہے ہیں۔
فطرت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والا بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این کے پروگرام ڈائریکٹر طاہر قریشی کے مطابق شہر میں درخت کاٹے جارہے ہیں جس سے پرندوں کے گھونسلے ختم ہورہے ہیں اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیاں، ہریالی کا ختم ہونا اور پھر اس پر شدید گرمی پرندوں کی افزائش نسل میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔
کراچی میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے ناصرف انسان بلکہ پرندے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مطابق شہر میں پانی کی طلب 1.1 بلین گیلن یومیہ ہے جبکہ اس کی رسد 550ملین گیلن یومیہ ہے۔ جو کہ ضرورت سے انتہائی کم ہے۔
کراچی کے آس پاس کے علاقوں ملیر اور گڈاپ میں ہرے بھرے کھیت اور فروٹ فارمز ہوتے تھے لیکن بڑھتی ہوئی آبادی نے یہاں بھی ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بناڈالیں۔ پانی کی قلت کی وجہ سے یہ زرعی زمین اب بنجر بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ شہر پر مون سون بھی انتہائی مختصر کے لیے آتا ہے، جس کی وجہ سے پرندوں کو پانی نہیں مل پاتا۔
ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر یعنی ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ایڈوئزر ڈاکٹر معظم نے نیوزلینز پاکستان کو بتایا کہ کراچی سیمنٹ کا شہر بن چکا ہے، جس نے پرندوں سے ان کے گھونسلے چھین لیے ہیں۔
“پرندوں کی افزائش نسل ختم ہونے کی ایک بڑی وجہ پانی کی کمی بھی ہے، کئی اقسام کے پرندے اب کراچی کا رُخ نہیں کرتے کیوں کہ مقامی درخت ختم کیے جارہے ہیں یہ پرندے ان مقامی درختوں پر ہی بیٹھا کرتے تھے۔”
very interesting story, not seen in daily papers on news channels before