پشاور (شیراز اکبر سے) پشاور کی تاریخی مسجد مہابت خان کے متولی کا کہنا ہے کہ حکام کی جانب سے 17ویں صدی کے اس تاریخی ورثے کی مرمت اورتزئین و آرائش کا کام نظرانداز کیے جانے کے باعث یہ شکستہ حالی کا شکار ہوچکی ہے۔
مسجد کے متولی عبداللہ مہتمم نے کہا:’’ یہ صوبے کے چند اہم ترین تاریخی مقامات میں سے ایک ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے لیکن جب وہ اس عظیم تاریخی ورثے کی حالتِ زار دیکھتے ہیں تو مایوس ہوجاتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ مسجد کے صحن کے وسط میں وضو کرنے کے لیے تالاب اور بیت الخلائوں کے نلکے خراب ہوچکے ہیں۔ 25اکتوبر 2015ء کو آنے والے زلزلے سے مسجد کا ایک مینار متاثر ہوا جو کسی وقت بھی منہدم ہوسکتا ہے۔
عبداللہ مہتمم نے کہا:’’ یہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنے والوں کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔‘‘
1660ء میں تعمیر ہونے والی مغل عہد کی عظیم الشان مسجد مہابت خان معروف اندرون شہر کی ایک تنگ گلی میں قائم ہے۔مسجد کا نام نواب مہابت خان کی مناسبت سے رکھا گیا جو انڈیا میں مغل حکمرانوں کے عہد میں پشاور کے گورنر تھے۔ وہ شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں مغل فوج کے طاقت ور جرنیل اور حکمران تھے۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح سلمان علی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسجد کے طرزِ تعمیر کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کے در و دیوار پر کی گئی گل کاری، رنگوں کا امتزاج اور بناوٹ میں مغلیہ عہد کی جھلک ہے۔
انہوں نے مزید کہا:’’ مسجد مہابت خان کی طرح کے تاریخی مقامات مسلمانوں کے عہدِ رفتہ کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن باعثِ افسوس امر تو اس کی شکستہ حالی ہے جس سے متعلقہ حکام کی اس نوعیت کی اہم تاریخی عمارات کے حوالے سے لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘
1834ء میں سکھ حکمرانوں نے پشاور پر حملہ کیا اور شہر پر قبضہ کرلیا جنہوں نے مسجد کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ کچھ تاریخی مآخذوں کے مطابق سکھ مسجد کے میناروں کو جرائم پیشہ عناصر کو پھانسی دینے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
مسجد مہابت خان دیکھنے کے لیے آئے ہوئے ایک اور سیاح متین خان نے کہا:’’ لاہور کی مسجد وزیر خان و بادشاہی مسجداور ٹھٹھہ کی شاہی مسجد کے ساتھ ساتھ مسجد مہابت خان بھی پاکستان میں مغلیہ طرزِ تعمیر کی بہترین مثال ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مسجد وزیر خان، شاہی اور بادشاہی مسجد کے برعکس مسجد مہابت خان کی عمارت شکستہ حالی کا شکار ہے جس کے در و دیوار پر بنے نقش و نگار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھندلے ہوتے جارہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف آرکیالوجی کے حکام کہتے ہیں کہ مسجد کی بحالی اور مرمت کی ذمہ داری محکۂ اوقاف کی ہے جو صوبے میں قائم تمام مذہبی عمارتوں کو منتظم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ محکمۂ اوقاف کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق مسجد مہابت خان 1949ء سے محکمہ کی عملداری میں ہے جس نے اسے 1982ء میں تاریخی عمارت قرار دیا ۔
محکمۂ اوقاف کے پراجیکٹ ڈائریکٹر انجینئر ندیم نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت مسجد کی تعمیر و بحالی کی سرگرمیاں فعال انداز سے انجام دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے 2015-16ء کے تحت محکمۂ اوقاف کو مسجد مہابت خان کی تزئین و آرائش اور مرمت کے لیے چار کروڑ روپے فراہم کیے تھے۔
انہوںنے مزید کہا :’’ محکمۂ اوقاف نے اس منصوبے پرعملدرآمد کے لیے محکمہ کمیونیکیشن و ورکس کی ایگزیکٹو انجینئرنگ بلڈنگ ڈویژن 2 کی خدمات حاصل کی ہیں جو پی سی 2پہلے ہی مکمل کرچکا ہے اور ماہرین اور انجینئرز کی خدمات حاصل کرنے کے بعد پی سی 1بھی جلد مکمل کرلیا جائے گا جس کے بعد مسجد مہابت خان کی تزئین و آرائش کا کام عملی طورپر شروع کر دیا جائے گا۔‘‘
انجینئر ندیم نے کہا کہ کام شروع ہونے میں تاخیر کی وجہ منصوبے کے لیے ماہرین اور انجینئرز کا نہ ہونا تھا کیوں کہ یہ ایک پیچیدہ تاریخی عمارت ہے جس کی مرمت اور تزئین و آرائش عام انجینئرز کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے بیرونِ ملک سے انجینئرز کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
ان کا مزید کہنا تھا:’’ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان مسجد مہابت خان اور دیگرتاریخی عمارتوں کی بحالی میں ذاتی طور پر دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے ان مقامات کا دورہ کیاہے اور تزئین و آرائش کے لیے فنڈز فراہم کیے ہیں۔‘‘