پشاور ( توصیف الرحمان سے) احمد زیب کو صبح آٹھ بجے دفتر پہنچنا ہے۔ وہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں جو پشاور میں صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے تین مراکز میں سے ایک ہے‘ ان کو صبح کے وقت ہسپتال کے باہر مریضوں کی قطار لگنے سے قبل منزلِ مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے۔
انہوں نے ڈاکٹروں کی شفٹ میں تبدیلی کے دوران درمیانی وقفہ میں نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ اگر میں صبح ساڑھے سات بجے گھر سے نکلوں تو آسانی کے ساتھ بروقت ہسپتال پہنچ جاتاہوں لیکن سفر طویل، پیچیدہ اور تھکا دینے والا ہوتا ہے اور اکثر اوقات بروقت ہسپتال پہنچنا غیر یقینی ہوجاتا ہے۔مجھے متعدد سکیورٹی چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے جہاں پر کلیئرنس میں 10منٹ سے نصف گھنٹہ تک لگ جاتا ہے۔
شہر میں جیسا کہ زیادہ سے زیادہ سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کی جارہی ہیں جس کے باعث پشاور دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے باعث بہ ظاہر ایک قلعے میں تبدیل ہورہا ہے‘ سڑکوں پر ٹریفک کا شور اکثر و بیش تر ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے کیوں کہ گاڑیاں سکیورٹی پوسٹوں پر پھنسی ہوتی ہیں۔
تاہم یہ صرف سکیورٹی پوسٹیں ہی نہیں ہیں جن کے باعث احمد زیب کو ہسپتال جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ شہری یا سیاسی مسائل کے حل کے لیے عوام حکام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پرنکل آتے ہیں جو ٹریفک جام کی ایک بڑی وجہ ہے۔
احمد زیب کہتے ہیں:’’ احتجاج کی صورت میں سڑک کی بحالی میں کئی گھنٹے صرف ہوسکتے ہیں۔ پشاور مشکلات کا شکار ہے کیوں کہ ٹریفک جام ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے۔آپ ٹریفک کو کنٹرول نہ کیے جانے اور ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے بیزار کن نظام کے باعث مسافروں اور ڈرائیوروں کے چہروں پر مایوسی کے تاثرات عیاں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
نیوز لینز سے بات کرنے والے لوگ اس نکتہ پر متفق تھے کہ پشاور میں ٹریفک کو منظم کرنے کا نظام گزشتہ چند برسوں کے دوران انتہائی خراب ہوا ہے، یہ ایک بڑے انتظامی چیلنج کے طور پر ابھرا ہے جس کے حل کے لیے فوری طور پر حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ پشاور کی سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہے۔
ٹریفک پولیس کے ایک سینئر افسر واحد محمود نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی نوعیت کے قوعد و ضوابط کے بغیر شہری آبادی میں اضافہ، سڑکوں کا ناکافی انفراسٹرکچر،جابجا سکیورٹی چیک پوسٹیں اور سڑکوں کے اطراف میں مختلف عناصر کی جانب سے کیا جانے والا قبضہ شہرمیں ٹریفک کے اژدھام کی بنیادی وجہ ہے۔
ایک نجی یونیورسٹی کے استاد محمد اشفاق کہتے ہیں: لوگوں نے اب ایک دوسرے سے ٹریفک جام کی وجہ کے بارے میں استفسار کرنا چھوڑ دیا ہے کیوں کہ وہ آگاہ ہیں کہ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا موجود نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پشاور کے باسی شہر کی تمام بڑی شاہراؤں پر روز گاڑیوں کی طویل قطاریں دیکھتے ہیں۔
اشفاق متعدد بار سڑکوں پر ایمبولینسوں کو کھڑا دیکھ چکے ہیں‘ ان کے سائرن بج رہے ہوتے ہیں لیکن وہ مریضوں کو بروقت علاج کے لیے ہسپتال پہنچانے سے قاصر ہوتی ہیں۔
ٹریفک پولیس کے سینئر افسر واحد محمود اس بات سے متفق ہیں کہ شہر میں ٹریفک کا اژدھام ایک سنگین مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ سڑکوں پر ٹریفک جام کی بہت ساری وجوہات ہیں۔
واحد محمود کہتے ہیں:’’ گزشتہ 15برسوں کے دوران شہر کی آبادی دگنا ہوچکی ہے۔ اربن پلاننگ یونٹ کے اعداد و شمار کے مطابق پشاور کے اندرون شہر کی آبادی 2001ء میں 2,165,480 تھی جو اب مرتب کیے گئے اندازوں کے مطابق 6,872,318 ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزید برآں مختلف قبائلی ایجنسیوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے 45لاکھ آئی ڈی پیز نے بھی اس شہرکا رُخ کیا ہے۔
واحد محمود سٹی ٹریفک پولیس کے سربراہ ہیں‘وہ کہتے ہیں کہ پشاور میں 2001ء میں کوئی ایک سکیورٹی چیک پوسٹ بھی نہیں تھی جب کہ اس وقت 116سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم ہیں۔ 20سے زائد سڑکوں کو ٹریفک کی آمد و رفت کے لیے بند کیا جاچکا ہے جس کے باعث ٹریفک کا بہاؤ دوسری سڑکوں کی جانب ہوجاتا ہے‘ یوں ٹریفک جام ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا:’’ یہ (چیک) پوسٹیں ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ ہیں۔‘‘
اسی طرح گزشتہ 15برسوں کے دوران آ بادی میں اضافے کے باعث سڑکوں پر ٹریفک کا رش بڑھا ہے۔
واحد محمود نے کہا:’’ 2001ء میں شہر میں رواں دواں گاڑیوں کی تعداد 115,789تھی جو بڑھ کر 353,490 ہوچکی ہے۔
تحقیقی مجلے ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے 2010ء کے شمارے میں پشاور کی ٹریفک پر شایع ہونے والے تحقیقی مقالے میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 1998ء سے 2009ء کے دوران سڑکوں پر رواں دواں گاڑیوں میں 126.4فی صد اضافہ ہوا جب کہ سڑکوں کی توسیع صرف 0.85فی صد ہی ہو پائی۔
15برس قبل پشاور میں صرف چار بس سٹینڈ تھے جو بڑھ کر 20ہوچکے ہیں۔رکشوں و ٹیکسیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور شہر میں متعدد ٹیکسی سٹینڈ قائم ہوچکے ہیں۔
واحد محمود نے کہا کہ ہرروز تقریباً نو ہزار بسیں، 57سو منی بسیں، 9,396ویگنیں اور کوچز جب کہ کم از کم 40ہزار رکشے سڑکوں پر رواں دواں نظر آتے ہیں۔
ٹریفک کے بہاؤ کو برقرار رکھنے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ پشاور میں پارکنگ لاٹ نہیں ہیں۔ واحد محمود نے کہا:’’ لوگ مصروف مقامات اور کاروباری مراکز کے باہر اپنی گاڑیاں کھڑی کردیتے ہیں جس کے باعث ٹریفک کے بہاؤ میں خلل پیدا ہوتا ہے۔‘‘
پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی عالم خان کہتے ہیں کہ پشاور میں دوسرے شہروں کی نسبت زندگی کی چہل پہل کو روکنا انتہائی آسان ہے۔ انہوں نے کہا:’’ شہر کی مرکزی شاہراہ کو داخلی راستے رحمان بابا چوک یا سورے پل سے بند کردیں اور آپ دیکھیں گے کہ شہربھر میں ٹریفک جام ہوجائے گی۔‘‘
سماجی کارکن تیمور کمال کہتے ہیں کہ حالیہ مہینوں کے دوران عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں احتجاج نے سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینوں اور کارکنوں کوشہری زندگی مفلوج کرنے پر ابھارا جنہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے پشاور ، جوکہ صوبہ خیبرپختونخوا کا دارالحکومت ہے اورجہاں پر عمران خان کی جماعت برسرِاقتدار ہے، کی مرکزی شاہراہ بند کر دی۔
تیمور کمال نے کہا:’’ اس سے قطأ نظر کہ پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں دھرنااپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا یا نہیں لیکن احتجاج کے باعث یقیناًپشاور میں ٹریفک اور مسافر سڑکوں پر محصورہوگئے۔‘‘
سینئر قانون دان اور پشاور ہائیکورٹ کے سابق جنرل سیکرٹری امین الرحمان نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965ء اور موٹر وہیکلز رولز 1969ء کے تحت سڑکوں کو بلاک کرنا اور ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنا جرم ہے۔
انہوں نے کہا:’’ تعزیراتِ پاکستان کی شق 133کے تحت سڑکوں کو خواہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام بند کریں یا مظاہرین‘ یہ ایک فوجداری جرم ہے۔‘‘
ٹریفک کے مسائل کے حل اور سڑکوں پر ہونے والے حادثات سے نمٹنے کے لیے سٹی ٹریفک پولیس کے حکام نے ٹریفک ہیلپ لائن شروع کی ہے۔ ٹریفک کے ہر طرح کے مسائل جن میں ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ، حادثات، ٹریفک جام اور ٹریفک کا رُخ متبادل راستوں کی جانب موڑنا شامل ہیں تو اس صورت میں لوگ معلومات و رہنمائی کے لیے 1915پر کال کرسکتے ہیں۔
واحد محمود نے کہا:’’ ہیلپ لائن 24گھنٹے کام کرتی ہے ‘ ٹریفک پولیس کسی بھی قسم کی شکایت یا مرکزی شاہراؤں پر نصب کلوز سرکٹ کیمروں پر حالات کا جائزہ لینے کے بعد فوری طور پر کارروائی کرے گی۔‘‘
ٹریفک پولیس صوبائی حکومت کو شہر کے پانچ مختلف مقامات پر انڈرپاس تعمیر کرنے کا پروپوزل ارسال کرچکی ہے۔
مذکورہ پروپوزل میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ سڑکوں کی توسیع کی جائے جنہیں شہر کے اطراف میں قائم رنگ روڈ سے منسلک کر دیا جائے جس سے اندرونِ شہر کی مرکزی شاہراؤں پر ٹریفک کے بہاؤ میں کمی آئے گی۔
حکومت کو یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے احتجاج کے لیے مخصوص مقام مختص کرے۔
واحد محمود نے کہا:’’ لوگوں کو شہر کی سڑکوں کو بند کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں اگر کوئی احتجاج کرنا چاہے تو وہ شہری انتظامیہ سے اس کی اجازت لے اور ٹریفک پولیس کو اس بارے میں مطلع کرے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس پروپوزل میں سڑکوں پر گاڑیوں میں مشکوک مواد کا پتہ لگانے کے لیے سکینرز کی تنصیب کی تجویز بھی دی گئی ہے جس کے باعث گاڑیوں کی فرداً فرداً جانچ نہیں کرنا پڑے گی اور ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔