(نیوز لینز پاکستان) پاکستان مسلم لیگ (ن) میں مشتبہ مخبر پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی نظر ہے کیونکہ اس بات کی نشاندہی ہوئی تھی کہ قریبی حلقوں میں ہونے والی خفیہ بات چیت، حتیٰ کہ سرگوشیاں بھی، براہِ راست ’’ایسے افراد‘‘ تک پہنچ رہی تھی جو موجودہ بحرانی وقتوں میں پارٹی کی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال سے باخبر ایک عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ بظاہر جس شخص پر سوالات اٹھ رہے ہیں وہ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے قریبی شخص ہیں اور اکثر انہیں پارٹی کے اندر اور باہر پیغام رسانی کا کام دیا جاتا رہا ہے۔
یہ شک اس وقت اٹھا جب ائیرپوڈز کا حد سے زیادہ اور غیر ضروری استعمال ہونے لگا۔ ائیرپوڈز ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کی جانب سے بنائے جانے والے بلیوٹوتھ وائرلیس ہیڈفونز ہیں۔
ذریعے نے بتایا کہ اُس شخص کے ائیرپوڈز میں جاسوس ڈیوائس نصب ہے اور وہ مشتبہ شخص میٹنگ میں یا پھر کہیں اور جانے کی صورت میں اہم رہنماؤں کے قریب اپنے یہ ائیرپوڈز ’’بھول‘‘ جاتا ہے۔
یہ سازش اس وقت گہری ہوئی جب بند کمروں میں انتہائی خفیہ بات چیت فوراً غیر مطلوبہ عناصر تک پہنچ گئی۔
ائیرپوڈز عموماً فون کالز سننے کیلئے اُس وقت استعمال کیے جاتے ہیں جب آپ کا آئی فون آپ سے دور رکھا ہو یا پھر آپ اپنا فون ہاتھ میں پکڑے نہیں رکھنا چاہتے، لیکن ائیرپوڈز اور فون کا ایک دوسرے کے 5؍ سے 6؍ میٹر کے دائرے میں ہونا ضروری ہے۔
پراڈکٹ بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس دائرے کے باہر ائیرپوڈز کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ تاہم، امریکا میں بھی اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ ائیرپوڈز کو جاسوسی کے مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا اس وقت ممکن ہے جب آپ اپنا فون کسی کے قریب رکھ دیں اور ’’لائیو لِسن‘‘ کا آپشن استعمال کرتے ہوئے ائیرپوڈز پر قریبی کمرے میں بیٹھ کر تمام گفتگو سنیں۔
تاہم، اس معاملے میں جس شخص پر شک ہے اس کے پاس اکثر اوقات فون نہیں ہوتا اور امکان ہے وہ یہ فون باہر ہی اپنی گاڑی میں رکھ دیتا ہو اور یہ ائیرپوڈز کی رینج میں آتے ہوں جہاں سے یہ سگنل پکڑ لیتے ہیں۔
شک اس لیے بھی بڑھ گیا کہ مذکورہ شخص نے بند کمروں میں ہونے والے اجلاس میں بھی ائیرپوڈز پہننا معمول بنا لیا۔
ذریعے کا کہنا ہے کہ ائیرپوڈز میں اگر ’’جاسوس چپ‘‘ نصب کی گئی ہو تو اس میں سرگوشیوں کی آواز بھی آسانی سے سنی جا سکتی ہے۔ اس طرح کوئی بھی شخص 2؍ کلومیٹرز کے فاصلے سے بھی ائیرپوڈز کو استعمال کرتے ہوئے بات چیت باآسانی سن سکتا ہے۔
کچھ پارٹی رہنماؤں کیلئے مذکورہ شخص کی جانب سے جاسوسی کرنا حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ انہیں اُس شخص کے پارٹی قیادت کے مخالف بنے ہوئے عناصر کے ساتھ تعلقات کا پس منظر معلوم ہے۔