اسلام آباد: نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے ایک حالیہ سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کی آبادی کے کچھ حصے ایچ آئی وی کی وبا سے متاثر ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔ ایچ آئی وی سے متاثر ہونے اور اس سے تحفظ کے حوالے سے مناسب آگاہی نہ ہونے کے باعث اس وبا پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے۔
یہ انکشاف سروے بعنوان ’’پاکستانی آبادی کے طبی و کرداری رجحانات کی نگرانی 2016-17ء‘‘میں کیا گیا ہے ( جس کے نتائج صرف نیوز لینز پاکستان کو ہی حاصل ہوئے ہیں)، مذکورہ سروے میں پاکستان کے گنجان آباد علاقوں میں طبی خدمات کی فراہمی بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس سے قبل 2011ء میں ایک قومی سروے کیا گیا تھا، لہٰذا یہ ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی گئی کہ ایچ آئی وی کی وبا پر قابو پانے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی کی تشکیل کے لیے تازہ ترین معلومات کا حصول ضروری ہے جس کے باعث سروے کے پانچویں مرحلے کے انعقاد کی ضرورت واضح ہوگئی۔ چناں چہ یو این ایڈز اور گلوبل فنڈ نے 23شہروں و قصبوں میں خطرات سے دوچار آبادی میں ایچ آئی وی، ایڈز سے متاثرہ مریضوں کا تناسب اور ان کے رویے جاننے کے لیے اعداد و شمار جمع کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا۔
مذکورہ رپورٹ ایچ آئی وی، ایڈز سے متاثر ہونے کے خطرات سے دوچار آبادی کے چار مختلف طبقات کی طبی و کرداری خصوصیات کے حوالے سے معلومات فراہم کرتی ہے، جن میں منشیات کے عادی افراد، ہم جنس پرست مرد، خواجہ سرا اور خواتین جنسی کارکن شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار 23مقامات سے جمع کیے گئے جن میں سے 13پنجاب، چھ سندھ اور دو بلوچستان اور دو ہی خیبرپختونخوا میں واقع ہیں۔
اس سروے میں پہلی بار مرد جنسی کارکنوں کو شامل کیا گیا ہے، مذکورہ سروے سے یہ معلوم ہوا کہ مردہم جنس پرستوں (یہ جنسی کارکن نہیں ہیں) کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 7,76,873تک پہنچ چکی ہے جن میں سے قریباً3.4فی صدایچ آئی وی ایڈز سے متاثر ہیں۔ مرد جنسی کارکنوں کی تعداد ایک انداز ے کے مطابق 55.340ہے جن میں سے 5.6فی صد ایڈز سے متاثر ہیں۔ خواتین جنسی کارکنوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 1,73.447ہے جن میں سے 2.2فی صد ایڈز سے متاثر ہیں۔ سروے میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 1,13,422بیان کی گئی ہے جن میں سے 3.8فی صد ایڈز سے متاثر ہیں۔ مزید برآں ایچ آئی وی ایڈز سے سب سے زیادہ خواجہ سرا متاثر ہیں جن کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 52,425ہے اور ان میں سے 7.1فی صد ایڈز سے متاثر ہیں۔
یہ سروے چھ برس بعد منعقد کیا گیا ہے۔ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر عبدالبصیر خان اچکزئی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مارچ 2017ء تک ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی، ایڈز کے مریضوں کی تعداد 1,33,299تھی جن میں سے صرف 18,868نے خود کو علاج کے لیے رجسٹر کروایا تھا۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مذکورہ سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایچ آئی وی ایڈز شہری آبادی میں پھیل رہا ہے اور اس سے متاثرہ افراد کی تعداد 0.1فی صد سے بھی کم ہے۔ پاکستان کی اب بھی محدود آبادی ہی ایچ آئی وی کی وبا سے متاثر ہوئی ہے۔ سروے کے نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بیماری آبادی کے کچھ حصوں میں تیزی سے پھیلی ہے۔
بہت سے دیگر خطوں کی طرح پاکستان میں بھی ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد انجیکشن کے ذریعے منشیات استعمال کرنے والے افراد، خواجہ سراؤں اور خواجہ سرا جنسی کارکنوں پر مشتمل ہے اور اس کے خواتین جنسی کارکنوں اور ہم جنس پرست جوڑوں میں پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر عبدالبصیر خان اچکزئی کہتے ہیں کہ اگرچہ 0.1فی صد کی شرح خاصی کم ہے جس کے باعث پاکستان میں ایچ آئی وی کی وبا کے مہلک اثرات کی درست طورپہ وضاحت نہیں ہوپاتی۔ انہوں نے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عام آبادی میں ایچ آئی وی کی وبا بہت تیزی سے نہیں پھیل رہی لیکن آبادی کے کچھ حصے اس سے بدترین طورپہ متاثر ہورہے ہیں جو ملک میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافے کی بنیادی وجہ بن رہے ہیں۔ سروے کے نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آبادی کے کچھ حصوں میں ایچ آئی وی کی وباکی شرح کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔
اس تحقیق میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ ’’ کچھ خاص افراد اور کمیونٹیوں کو ایچ آئی وی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے کمیونٹی کی جانب سے شروع کیے جانے والے طبی، کرداری اور ساختیاتی نوعیت کے پروگراموں کے نئے انفیکشنز کی شدت کو کم کرنے کے حوالے سے دوررَس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔مذکورہ سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وقت قومی و علاقائی سطح پر نگرانی اور جائزے کا مؤثر نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ پروگراموں کی نگرانی سے حاصل ہونے والے اعداد و شماران کا معیار اور اثرپذیری برقرار رکھنے کے حوالے سے تفصیلی معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔ ملکوں کی ایک بڑی تعداد نے پروگراموں کی نگرانی کے ذریعے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو ان کی کامیابی کے لیے استعمال کیا ہے جن میں انہوں نے انفرادی سطح اور آبادی کے کچھ خاص حصوں پر توجہ دی۔ پاکستان میں بھی نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تعاون سے اسی نوعیت کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
مذکورہ تحقیق میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا ہے کہ’’ ہم اب یہ آگاہی رکھتے ہیں کہ اگر ایڈز کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جاتے تو کس نوعیت کی تباہی و بربادی ہماری منتظر ہوگی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان اقدامات کو کس طرح سے مؤثر بنایا جاسکتا ہے تاکہ لاکھوں جانیں اور کروڑوں ڈالر بچائے جاسکیں۔ اس منصوبے پر عملدرآمد ممکن ہے لیکن اس کے لیے سماج کی ہر سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘