پشاور: کم شرح خواندگی اور بچوں کی ایک بڑی تعداد کے سکولوں میں نہ جانے کے باعث وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں(فاٹا) میں تعلیم کی تشویش ناک صورتِ حال کی عکاسی ہوتی ہے جہاں 10میں سے پانچ سکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، اور اس ساری صورتِ حال کے طالب علموں کے سکولوں میں داخلے اور اخراج کی شرح پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ قبل ازیں ، حکومت نے عسکریت پسندی کے بدترین برسوں کے دوران تعلیم پر اپنے اخراجات دگنا کرد یے تھے لیکن فاٹا میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
فاٹا میں ڈائریکٹوریٹ برائے تعلیم کو قبائلی علاقوں میں اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دا ری سونپی گئی ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے تعلیم کے لیے مختص کیے گئے بجٹ میں طالب علموں کے داخلے کی شرح اور معیار بہتر بنانے کے بجائے صرف اور صرف ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز پر توجہ دی گئی ہے۔
نیوز لینز پاکستان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ محکمۂ تعلیم کو بیرونی امداد کی مد میں خاطرخواہ فنڈز حاصل ہوئے ہیں لیکن جب نتائج کا جائزہ لیا جائے تویہ درست طورپہ استعمال نہیں ہوئے۔ اس وقت یو ایس ایڈ، یو این ڈی پی، یونیسیف اورجی آئی زیڈ اہم ترین پارٹنرز ہیں جو فاٹا میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالی تعاون فراہم کررہے ہیں۔
فاٹا میں کامیاب فوجی آپریشن کے بعد گزشتہ چند برسوں کے دوران بہت سے سکولوں نے معمول کی سرگرمیاں انجام دینا شروع کر دی ہیں۔ اس وقت فاٹا میں قائم 10میں سے آٹھ سکول دوبارہ کام شروع کرچکے ہیں اور دو بند پڑے ہیں۔ فاٹا میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد 5994 اور نجی تعلیمی اداروں کی تعداد 408ہے۔ 2015-16ء کی سرکاری شماریاتی رپورٹ کے مطابق سکول جانے والے 10بچوں میں سے آٹھ سرکاری سکولوں میں زیرِتعلیم ہیں جب کہ دو نجی سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔
فاٹا میں عسکریت پسندی کی لہر کے دوران قریباً 12سو سکول جزوی یا مکمل طورپر تباہ ہوئے تھے۔ مختلف سالانہ ترقیاتی پروگراموں، بحالی و تعمیر نو کے یونٹوں ( آر آر یو) اور بیرونی اداروں کی مدد سے قریباً نو سو سکول بحال کیے جاچکے ہیں،
ڈائریکٹورٹ برائے تعلیم کی جانب سے فراہم کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے کچھ سکولوں کی تعمیرِنوکا کام اب بھی جاری ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی تین سو سکول بحالی و تعمیرِ نو کے منتظر ہیں۔
ڈائریکٹر تعلیم، فاٹا ہاشم خان آفریدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ باجوڑ ایجنسی میں 2009ء میں سکولوں میں فرنیچر کی فراہمی اور ان کی مرمت پر 40لاکھ روپے خرچ کیے گئے تھے کیوں کہ عسکریت پسندی کی لہر سے بہت سے سکول متاثر ہوئے تھے اور فرنیچر تباہ ہوگیا تھا۔ باقی بچ جانے والے فرنیچر کو لوٹ لیا گیا۔ ان حالات سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ فاٹا میں کئی برسوں سے جاری عسکریت پسندی سے سکول کس طرح متاثر ہوئے ہیں۔
اگرچہ فاٹا میں محکمۂ تعلیم اپنے مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے کے لیے اپنی سی کوشش کررہا ہے لیکن اسے سکیورٹی کے حوالے سے بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے، بجٹ ناکافی ہے، اداروں میں رابطوں کا فقدان ہے اور ترقیاتی منصوبوں پر درست طورپہ عمل نہیں ہورہا۔ فاٹا کے نصف سے زائد سکولوں کی بیرونی دیوار نہیں ہے، وہ بیت الخلاؤں اور پینے کے صاف پانی کی سہولیات سے محروم ہیں اور یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث فاٹا میں طالب علموں کے سکولوں سے اخراج کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
پشاور کے آرمی پبلک سکول پر 16دسمبر 2014ء کو ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو سکیورٹی بڑھانے کی ہدایت کی، اس دہشت گرد حملے میں 144طالب علم ہلاک ہوگئے تھے لیکن اگر خطے کا دوسرے صوبوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو فاٹا کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جہاں اب بھی ایسے سکولوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کی بیرونی دیوار نہیں ہے۔ ان وجوہات کے باعث حکومت کی فاٹا کے بچوں کو سکیورٹی فراہم کرنے اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے لاپرواہی ظاہر ہوجاتی ہے جب کہ حکومت کی جانب سے یہ نعرہ بلندکیا جارہا ہے کہ:’’ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے!‘‘
اسسٹنٹ ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ دویلپمنٹ کاشف نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محدود وسائل اور ناکافی بجٹ کے باعث سکولوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کا عمل متاثر ہورہا ہے۔
فاٹا کے سکولوں میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث ہر برس سکولوں سے طالب علموں کے اخراج کی شرح میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔سرکاری اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہو جاتاہے کہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران 10میں سے چھ بچے میٹرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ پرائمری کی سطح پر بھی یہ رجحان نظر آتا ہے جہاں بچوں کی اکثریت تعلیم مکمل ہونے سے قبل سکول چھوڑ دیتی ہے۔ اعداد و شمار کا مزید جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ فاٹا کی طالبات میں طلباء کی نسبت سکول چھوڑنے کا رجحان زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر 10میں سے سات طالبات میٹرک تک تعلیم مکمل کرنے سے قبل سکول چھوڑ دیتی ہیں، طلباء میں یہ تناسب 10میں سے چھ کا ہے۔
فاٹا کے ایڈیشنل ڈائریکٹر تعلیم محمد عباس خان نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عنقریب شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبوں سے شعبۂ تعلیم میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی ، ہم سکولوں میں جلد از جلد بنیادی سہولیات فراہم کردیں گے۔ انہوں نے اپنے اس مؤقف کو دہرایا کہ وہ دن دور نہیں جب فاٹا کے تمام سکولوں میں بنیادی سہولیات دستیاب ہوں گی اور ہر بچہ سکول جارہا ہوگا۔
سرکاری اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ سرکاری سکولوں میں زیرِتعلیم طالب علموں میں تعلیم جاری رکھنے کے رجحانات پریشان کن ہیں۔ پرائمری میں زیرتعلیم نصف سے زائد طالب علم بنیادی نوعیت کے امتحانات میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ مذکورہ بالا گراف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ10میں سے صرف چار طالب علم انگریزی، چار ریاضی، چار جنرل سائنس، پانچ اردو اور پانچ اسلامیات کے امتحان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ہاشم خان آفریدی کہتے ہیں، ’’اگرچہ ہم شہری علاقوں کا دیہاتوں کے ساتھ موازنہ نہیں کررہے تاہم اس وقت فاٹا کے سکولوں کی کارکردگی خیبرپختونخوا کے شہری علاقوں سے بہتر ہے لیکن فاٹا میں سکیورٹی کے حالات سکولوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں جنہیں اب بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘
فاٹا میں فروغِ تعلیم کے لیے کام کرنے والے کارکن شاہداللہ آفریدی نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے پاس اس وقت کیا وسائل دستیاب ہیں، یہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حالات سے فائدہ اٹھائیں اور شکایت کرنے کے بجائے بچوں کی تعلیم میں دلچسپی بڑھانے کے لیے کام کریں۔
اگرچہ آئین کے آرٹیکل 25اے کے تحت تعلیم بنیادی حق ہے اور ریاست کو ملک بھر کے بچوں کو بلامعاوضہ اور لازمی طورپر تعلیم فراہم کرنی چاہئے لیکن سرکاری اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاٹا میں پانچ سے نو برس کے 31فی صد طالب علم سکول نہیں جارہے۔ ان اعداد وشمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فاٹا میں پانچ سے نو برس کے 10طالب علموں میں سے پانچ سرکاری، ایک نجی سکول اور ایک دینی مدرسے میں زیرِتعلیم ہیں اور تین سکول نہیں جارہے۔ اعداد و شمار کا مزید گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو10سے 14برس کے 82.78فی صد طالب علم سکول نہیں جارہے، یوں 10سے 14برس کے طالب علموں میں یہ تناسب کچھ یوں بنتا ہے کہ ایک طالب علم سرکاری اور ایک نجی سکول میں زیرِتعلیم ہے جب کہ باقی آٹھ بچے سرے سے سکول ہی نہیں جارہے۔ اس گراف میں عمر کے اعتبار سے طالب علموں کے سکولوں میں زیرِتعلیم ہونے کے تناسب کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔
ہاشم خان آفریدی کہتے ہیں کہ محکمۂ تعلیم کوفاٹا میں سکولوں کے تحفظ کے لیے سکیورٹی اداروں کا تعاون حاصل ہے اور سکولوں کی بحالی و تعمیرِ نو کی سرگرمیوں کے دوران بھی سکیورٹی اداروں کا تعاون حاصل رہتا ہے۔ یہ امید ظاہر کی جاچکی ہے کہ فاٹا کے پولیٹیکل ایجنٹوں کی جانب سے سکول نہ جانے والے طالب علموں کوو اپس تعلیمی دھارے میں لانے کے لیے تعاون کی فراہمی سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔