’’اسلام اور میری زندگی‘‘۔۔۔ ایک منفرد رمضان شو

0
2008

لاہور: پاکستان گزشتہ کچھ عرصہ سے پرتشدد انتہا پسندی کا سامنا کررہا ہے جس کے باعث سکیورٹی امور کے ماہرین ایک متبادل بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں جو موجودہ پرتشدد جحانات کے سدِباب میں معاون ثابت ہواورایک روشن اور پرامن مستقبل کی بنیاد قرار پائے۔

اس حوالے سے ریاستی سطح پر بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں تو ذرائع ابلاغ کے ادارے بھی اپنی سی سعی کررہے ہیں۔ اس کی ایک مثال پاکستان کے ایک نمایاں ترین نجی ٹی وی چینل سے نشر ہونے والا خصوصی رمضان پروگرام ’’اسلام اور میری زندگی‘‘ ہے جس کا فارمیٹ رمضان المبارک کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا ہے اور اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں دوسرے رمضان شوز کی طرح صرف ٹی آر پی ریٹنگ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ ان موضوعات پر بات کی گئی ہے جن پر پاکستان کی طرح کے رجعت پسند معاشروں میں بات کرنے سے گریز کی جاتی ہے۔

مذکورہ پروگرام معروف عالمِ دین اورتنظیمِ اتحادِ اُمت کے سرپرست علامہ ضیاء الحق نقشبندی کی میزبانی میں نشرہو رہا ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے اتحاد اُمت کے لیے نہ صرف عملی طورپر کوشاں ہیں بلکہ انہوں نے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو اس مشکل سفر میں اپنے ساتھ شامل کیا ہے تاکہ فروعی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا جائے جو سب فرقوں و گروہوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔

تنظیمِ اتحاد امت کے تحت کام کرنے والے ادارے اتحادِ اُمت اسلامک سنٹر کی خدمات اس حوالے سے ناقابلِ فراموش ہیں جہاں مدارس کے طالب علم عصری تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے جدید تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

علامہ ضیاء الحق نقشبندی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:’’پاکستان میں بہت سارے ایسے موضوعات ہیں جنہیں زیرِبحث نہیں لایا جاتا لیکن ہم نے سوچا کہ ان پر بات کی جائے۔ چناں چہ تنظیم اتحادِ اُمت کے تحت ہم نے اب تک 40سے زائد کانفرنسیں منعقد کی ہیں جن میں مختلف مکاتب فکر کے دو سو سے زائد مفتیان کرام شریک ہوچکے ہیں۔اور ہم نے ایک ایسے وقت پر ان موضوعات کو نمایاں کیا جب دہشت گردی عروج پر تھی۔ ‘‘

وہ مزید کہتے ہیں:’’ ہم نے خاص طور پر دہشت گردی اور طالبان کے خلاف ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں دو سوسے زائد شیخ الحدیث اور شیخ القرآن شریک ہوئے جنہوں نے متفقہ طورپر دہشت گردی کے خلاف فتویٰ جاری کیا۔ اسی طرح جب پاکستانی خواتین کی دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ میں شمولیت کی خبریں اخبارات میں آرہی تھیں تو ہم نے یہ ضروری خیال کیا کہ خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے ، اس وقت ہم نے شیخات الحدیث کانفرنس منعقد کی ۔ ’شیخات الحدیث‘ اس وقت تک ایک ایسا لفظ تھا جو اس سے قبل کبھی استعمال نہیں ہوا تھا۔ اس کانفرنس میں مختلف مدارس میں حدیث کی تدریس کے فرائض انجام دینے والی قریباً ڈیڑھ سے دو سو خواتین نے شرکت کی جنہوں نے ’داعش ‘ میں خواتین کی شمولیت کو خلاف اسلام قرار دیا۔‘‘

کچھ عرصہ قبل تنظیم اتحاد اُمت کے پلیٹ فارم سے ایک فتویٰ جاری کیا گیا جس میں خواجہ سراؤں کی شادی کو شرعی طورپر درست قرار دیا گیا جس کے باعث ایک ایسے موضوع پربحث کا آغاز ہواجس پر بات کرنا تک ممنوع تھا۔ ایک بڑی غلط فہمی یہ پیدا ہوگئی کہ یہ فتویٰ ہم جنس پرستوں کی شادی سے متعلق ہے۔دوسری جانب اس فتویٰ کی تعریف کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے ضیاء الحق نقشبندی نے کہا:’’اسلام کی رو سے ہم جنس پرستی حرام ہے اور ہم اسے کسی طورپہ جائز قرار نہیں دے سکتے۔ یہ فتویٰ صرف اور صرف خواجہ سراؤں سے متعلق تھالیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد مذکورہ فتوے کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہوگئی۔ ‘‘

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:’’یہ فتویٰ صرف خواجہ سراؤں کی آپسی شادیوں تک محدود نہیں تھا، ہم نے ان کو شناختی کارڈ جاری کرنے، وراثت میں حصہ دینے کی بات بھی کی۔ ہم نے کہا کہ ان سے لاتعلقی اختیار نہ کی جائے اور ان کا مذاق نہ بنایا جائے۔ یہ نکات بھی اس فتوے میں شامل تھے جنہیں میڈیا نے نظرانداز کردیا۔‘‘

جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں ذکر ہوا ، علامہ ضیاء الحق نقشبندی ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر’’ اسلام اور میری زندگی‘‘ کے عنوان سے پروگرام کررہے ہیں جس میں ’’اسلام میں تفریح کا تصور‘‘، ’’اسلام میں جدیدیت کی گنجائش‘‘، ’’گھروں کو تباہی سے کیسے بچائیں؟‘‘’’ماحولیاتی آلودگی‘‘، ’’صحت اور اسلام‘‘، ’’وقت کی اہمیت‘‘ ، ’’ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق‘‘، ’’فضول خرچی اور توانائی کا بحران‘‘، ’’آج کے عہد کی ترجیحات‘‘کی طرح کے غیر روایتی موضوعات زیرِبحث آئے ہیں جو ٹی آر پی ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے موزوں دکھائی نہیں دیتے۔لہٰذا یہ سوال ابھرتا ہے کہ علامہ ضیاء الحق نقشبندی اپنے ٹی وی چینل کے مالکان کو یہ پروگرام شروع کرنے پر رضامند کرنے میں کس طرح کامیاب ہوئے؟

وہ کہتے ہیں:’’مالکان نے یہ پروگرام شروع کرنے کی اجازت ہی ان غیرروایتی موضوعات کے باعث دی۔میں یہ واضح کرتا چلوں کہ ہمارا مقصد شروع سے ہی ریٹنگ حاصل کرنا نہیں رہا۔ ہمارے پیشِ نظر سماج میں بہتری لانا ہے۔یوں ہم نے ملک میں نجی میڈیا کی 14برس پر محیط تاریخ سے انحراف کیا ہے اور دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس پروگرام کو پاکستان کی نسبت دیگر ملکوں کے ناظرین کی جانب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔‘‘

اس نوعیت کے غیرروایتی پروگراموں میں شریک ہونے والے مہمانوں میں عموماً شدید ترین اختلاف رائے پیدا ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے اور بسا اوقات کچھ علماء کے مذہبی جذبات بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ علامہ ضیاء الحق نقشبندی کہتے ہیں:’’ ایک بار نہیں، کئی بار ایسا ہوا کہ علمائے کرام نے اپنے مذہبی جذبات کا کھل کر اظہار کیا لیکن ہم نے ان پر یہ زور دیا کہ آپ منطقی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قرأن و حدیث کی روشنی میں بات کریں۔ دوسر،ا یہ اَمرخوش آئند ہے کہ علماء نے بھی ہمارا ساتھ دیا جس کے باعث ہم خوش اسلوبی سے یہ پروگرام کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔‘‘

اس قدر متنوع موضوعات کے باعث نہ صرف میزبان بلکہ پروگرام میں شریک ہونے والے علمائے کرام کے لیے بھی یہ ایک اہم چیلنج تھا کہ وہ ایسے متنوع موضوعات پر بات کریں جو غیر روایتی نوعیت کے ہیں یا جن کے بارے میں زیادہ لوگ آگاہی نہیں رکھتے۔ علامہ ضیاء الحق نقشبندی کہتے ہیں:’’علمائے کرام نے اس حوالے سے بہت زیادہ تعاون کیاہے۔ وہ ہر پروگرام میں شریک ہونے سے قبل اس بارے میں تیاری کرکے آتے ہیں۔ ‘‘

علامہ ضیاء الحق نقشبندی کے اس پروگرام نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے اور دنیا کی متعدد ویب سائٹس پر اس کی تشہیر کی گئی ہے جن میں لبنان کی سرکاری ویب سائٹ بھی شامل ہے۔

پروگرام کے شرکا میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام کو نمائندگی دی گئی ہے جن میں علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر، مولانا اویس سرور، سید ضیاء اللہ بخاری اور مفتی أبوبکر اعوان وغیرہ شامل ہے جو نہ صرف اس پروگرام کے فارمیٹ بلکہ زیرِبحث آنے والے موضوعات کے حوالے سے نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر دوسرے ٹی وی چینل بھی ٹی آر پی کی دوڑ میں پڑنے کے بجائے اسی طرح کے اصلاحی پروگرام نشر کریں تو دہشت گردی اور انتہا پسندی کا متبادل بیانیہ تشکیل دینا کچھ مشکل نہیں۔

بریلوی مکتبۂ فکر کے معروف عالمِ دین مفتی أبوبکر اعوان نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا:’’یہ ایک مثبت پروگرام ہے جس میں اسلام کے مثبت پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ایک اہم ترین چیلنج ہے جسے شکست دینے کے لیے عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، اگر میڈیا کے ذریعے ایسا کیا جاتا ہے اور لوگوں کو امن کا مثبت پیغام دیاجاتا ہے تو دہشت گردی کو شکست دینا ناممکن نہیں۔‘‘

کچھ اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار اہلحدیث مکتبہ فکر کے عالمِ دین مولانا سید ضیاء اللہ بخاری نے کیا جو یہ کہتے ہیں کہ ضیاء الحق نقشبندی کے پروگرام ’’اسلام اور میری زندگی‘‘ میں زیرِبحث آنے والے موضوعات علمی نوعیت کے ہیں ۔ دوسرا، اس پروگرام میں مختلف مسالک کے علمائے کرام کی نمائندگی کے باعث قوم کوفرقہ ورانہ ہم آہنگی کا پیغام ملا ہے کہ تمام مسالک میں بہت سی مشترکات ہیں جن کے بارے میں عوام کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا:’’ اگرنجی میڈیا کے شروع ہونے کے بعدسے اس نوعیت کے اصلاحی پروگرام نشر کیے جارہے ہوتے تو اس وقت ملک امن و امان کا گہوارہ ہوتا۔‘‘

دیوبندی مکتبۂ فکر کے نمائندہ اور عالمِ دین مولانا اویس سرور کہتے ہیں:’’یہ ایک شاندار پروگرام ہے جس میں اسلام کے علمی پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے، مثال کے طورپر ڈرائیونگ کرتے ہوئے کیا امور پیشِ نظر رکھے جائیں یا معذوروں کے کیا حقوق ہیں؟ اس پروگرا م کے ذریعے اسلام کے سافٹ امیج یا آسان لفظوں میں اسلام کا حقیقی چہرہ دکھایا گیا ہے ۔‘‘

جید علمائے کرام کی ان آراء سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ بھی یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کے عملی پہلوؤں پر پروگرام نشر کیے جائیں جو ایک متبادل بیانیے کی تشکیل کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ وہ اس حوالے سے میڈیا کے کردار کو نہایت اہم خیال کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن، پاکستان کے سربراہ اور معروف دانشور ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں:’’اس نوعیت کے پروگرام نشر کرنا ضروری ہے کیوں کہ اگر لوگوں کو شعور دیا جائے گا تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے تناظر میں میڈیا کا کردار شروع دن سے ہی نامناسب رہاہے۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے صرف فوج کچھ نہیں کرسکتی۔ میڈیا کو بھی چاہئے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ وہ ان حالات میں کیا رویہ اختیار کریں؟‘‘

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here