پشاور : فاٹا (وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں) کے عوام کے تحفظات میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ فاٹا سیکرٹریٹ کا شعبۂ تعلیم یونیسیف کے تعاون کے باوجود اب تک قبائلی علاقوں کے سرکاری سکولوں میں نصابی کتابوں کی بلامعاوضہ فراہمی عمل میں نہیں لاسکا۔ آٹھ اپریل کو نیا تعلیمی سال نصابی کتابوں کے بغیر شروع ہوا اور اس وقت ایسے بچوں کی سکولوں میں داخلے کے لیے مہم جاری ہے جو سکول نہیں جارہے۔ مزیدبرآں ان حالات سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ فاٹا میں موزوں قوانین اور نگرانی کا نظام نہ ہونے کے باعث فاٹا کے سرکاری حکام کسی ڈر کے بغیر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کررہے ہیں۔
افغانستان اور خیبرپختونخوا کے درمیان آبادان علاقوں کو یہ قانونی حیثیت پاکستان کی آزادی کے بعد دی گئی اور تب سے انہیں الگ قوانین کے تحت منتظم کیا جارہاہے جو ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز) کے نام سے معروف ہیں جنہیں برطانوی نوآبادیاتی عہد میں تشکیل دیا گیاتھا۔تاہم فاٹا کے جرگوں کی غیر معمولی طاقت کے باعث ایف سی آر سیاہ قانون کے طورپر معروف ہوا۔
فاٹا سیکرٹریٹ وفاقی حکومت سے اپنی فنڈنگ حاصل کرتا ہے لیکن اس کے باوجود خطے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں نہیں آئیں اور بدقسمتی سے بنیادی تعلیم نظرانداز ہونے والے شعبوں میں سے ایک ہے۔ پالیسیاں اور نگرانی کا نظام نہ ہونے کے باعث بنیادی تعلیم کا شعبہ بدترین زبوں خالی کا شکار ہواہے۔ حالیہ دہائیوں کے دوران عسکریت پسندوں نے سکولوں کی ایک بڑی تعداد تباہ کردی جنہیں ازسرِنو بحال کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں سے کچھ پاکستانی فوج کی جانب سے استعمال کئے جاتے رہے ہیں اور کچھ اب بھی استعمال کیے جارہے ہیں، اور ان میں سے کئی ایک بند پڑے ہیں۔ عملے کی کمی کے باعث طالب علموں کے لیے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے، خاص طورپر سکیورٹی کے حالات پریشان کن ہیں اور فاٹا سیکرٹریٹ کے شعبۂ تعلیم کی جانب سے بروقت تعاون فراہم نہیں کیا جارہا۔
تعلیم کی فراہمی بنیادی انسانی حقوق کا ایک اہم جزو ہے۔ پاکستان1989ء میں اقوامِ متحدہ کے تعلیم پر ہونے والے کنونشن کا دستخط کنندہ ہے۔پاکستان کے وزیراعظم کے ویژن سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہے جنہوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ حقِ تعلیم کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 25اے پر عملدرآمد کے لیے ہر بچہ سکول میں تعلیم حاصل کرے۔ آئین کی اس شق کے تحت’’ ریاست پانچ سے 16برس تک کی عمر کے بچوں کو بلامعاوضہ اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جیسا کہ قانون میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔‘‘
ماہرِقانون اور انیشی ایٹر ہیومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن (آئی ایچ ڈی ایف) کے صدر رانا آصف حبیب کہتے ہیں کہ فاٹا کے سکولوں میں نصابی کتابوں کی عدم دستیابی آئین کے آرٹیکل 25اے، وزیراعظم کے ویژن اور اقوامِ متحدہ کے حقِ تعلیم کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ سکولوں میں نصابی کتابوں کی وقت پر فراہمی یقینی نہ بنانے پرذمہ دارحکام کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ واضح ہوچکا ہے کہ ذمہ دار حکام نیا تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل نصابی کتابیں فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے باعث فاٹا میں طالب علموں کے سکولوں سے اخراج کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے، اوریوں طالب علموں کی تعلیمی امور میں دلچسپی ختم ہوجائے گی۔
نیوز لینز نے قبائلی علاقوں کے سکولوں میں نصابی کتابوں کی کمی کے معاملے پر تحقیق کی اور مختلف ذرائع، جن میں فاٹا کے مقامی لوگ اور اساتذہ بھی شامل ہیں، نے یہ تصدیق کی کہ سکولوں کی جانب سے ایجنسی ایجوکیشن افسر ( اے ای او) کو نصابی کتابوں کی فراہمی کے لیے درخواست دے دی گئی ہے لیکن ہم نے اب تک کوئی نصابی کتاب وصول نہیں کی۔ فاٹا میں تعلیمی سال کا آغاز آٹھ اپریل سے ہوتا ہے۔ نیوز لینز کو یہ معلوم ہوا کہ جماعت ہشتم کے طالب علموں کو دو، جماعت نہم کے طالب علموں کو صرف تین اور جماعت دہم کے طالب علموں کو صرف انگریزی کی کتابیں ہی موصول ہوئی ہیں۔
فاٹا کے اساتذہ نے مزید کہا کہ وہ پہلی بار اس نوعیت کے مسئلے کا سامنا نہیں کررہے، ایسا ہر برس ہوتا ہے اور انہوں نے متعدد بار اس بارے میں محکمۂ تعلیم کو آگاہ کیا ہے ۔ حکام صرف یہ امید دلاتے ہیں کہ نصابی کتابیں جلد فراہم کردی جائیں گی لیکن یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوا۔ مزیدبرآں نیوزلینز کو یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ خیبرایجنسی کے سکولوں کے ہیڈماسٹرز نے ذاتی طورپر شہری علاقوں میں قائم سکولوں سے کتابیں عطیہ کرنے کی درخواست کی۔ اسی نوعیت کے معاملات کوہاٹ ریجن میں بھی منظرعام پر آچکے ہیں۔
اس بارے میں نیوز لینز نے جب فاٹا سیکرٹریٹ کے شعبۂ تعلیم سے بات کی تو حکام نے یہ تصدیق کی کہ جنوبی و شمالی وزیرستان، خیبر اور کرم ایجنسی کے سکولوں کو پہلے ہی نصابی کتابیں فراہم کی جاچکی ہیں۔ نیوز لینز کو یہ بھی معلوم ہوا کہ فاٹا سیکرٹریٹ کی جانب سے جنوبی وزیرستان اور کرم ایجنسی پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ فاٹا کے تعلیمی بجٹ برائے مالی سال 2014-15ء میں مجموعی تعلیمی بجٹ میں سے جنوبی وزیرستان کو 30فی صد اور کرم ایجنسی کو 23فی صد حصہ ملا، باقی بچ جانے والا تعلیمی بجٹ فاٹا کی دیگر ایجنسیوں اور خطوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
تاہم فاٹا کی قبائلی ایجنسیوں میں مزید تحقیق کرنے پر ، جہاں حکام نے کتابوں کی فراہمی کا دعویٰ کیا تھا، نیوز لینز کو یہ معلوم ہوا کہ محکمۂ تعلیم کے حکام کے بیانات درست نہیں تھے جیسا کہ ان مقامات سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے یہ تصدیق کی کہ سکولوں کو اب تک نصابی کتابیں موصول نہیں ہوئیں۔ نیوز لینز کو یہ بھی پتہ چلا کہ محکمۂ تعلیم سکولوں کو نصابی کتابوں کی فراہمی کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھتا۔ مزید تفتیش کرنے پر ایک ہیڈ ماسٹر نے یہ انکشاف کیا کہ نصابی کتابیں حاصل کرنے والے سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کی ایک بڑی تعداد فاٹا سیکرٹریٹ کے ساتھ قریبی روابط کے باعث نصابی کتابیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
مزیدبرآں محکمۂ تعلیم نے یہ تسلیم کیاہے کہ نصابی کتابوں کی عدم فراہمی کا معاملہ بارہا پیدا ہو رہاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ متعلقہ ادارہ خیبرپختونخوا کے محکمۂ تعلیم اور اسلام آباد میں قائم نصابی کتابوں کی اشاعت کے مرکز کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرواچکا ہے۔ محکمۂ تعلیم نے کہا ہے کہ ان کا اپنا کوئی پرنٹنگ پریس نہیں ہے جس کے باعث ان کے لیے یہ مسئلہ حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے یہ تصدیق کی کہ کتابوں کی فراہمی کا عمل شروع ہوچکا ہے اور وہ پرامید ہیں کہ بہت جلد فاٹا کے تمام سرکاری سکولوں کو کتابیں فراہم کی جاچکی ہوں گی۔
گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ذیشان قاسم کہتے ہیں:’’طالب علم کتاب کے بغیر کمرۂ جماعت میں کس طرح پڑھ سکتے ہیں، اس سے طالب علم کی تدریسی امور میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے اور ہوسکتا ہے بچوں کے سکولوں میں داخلے کا ہدف حاصل نہ ہوپائے۔‘‘
مقامی لوگوں نے نیوز لینز سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ ہم اس حقیقت کے باوجود عسکریت پسندی برداشت کرسکتے ہیں کہ اس نے ہماری زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن سکولوں میں کتابوں کے نہ ہونے سے ہمارے بچوں کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔‘‘
متعلقہ حکام کے بیانات سے فاٹا کے سکولوں میں نصابی کتابوں کی عدم دستیابی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ تعلیم سے متعلقہ سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے فاٹا سیکرٹریٹ کے علاوہ ایک الگ ادارہ قائم کیا جائے اور نیا تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل نصابی کتابوں کی اشاعت یقینی بنائی جائے۔ باعثِ افسوس اَمر یہ ہے کہ اس معاملے پر بات کرنے کے لیے نیوز لینز نے گورنر خیبرپختونخوا سے بارہا رابطہ قائم کیا لیکن وہ اپنا مؤقف ظاہر کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہوسکے۔