صوابی: علی شاہ (فرضی نام) اور بیسیوں دیگر لوگوں نے توہینِ مذہب کے الزام پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کردیے جانے والے مشعال خان کے نمازِ جنازہ میں مقامی مذہبی مبلغ کی جانب سے مشعال کی آخری رسومات میں شامل نہ ہونے کے فتوے کے باوجود شرکت کی۔
پولیس سربراہ کہتے ہیں، رواں برس اپریل کے اوائل میں خیبرپختونخوا کی عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں زیرِتعلیم 23برس کے طالب علم مشعال خان کومشتعل ہجوم نے قتل اور ایک اور طالب علم کو مبینہ طورپر ’’توہین آمیز مواد آن لائن مواد شائع‘‘ کرنے پر زخمی کر دیا تھا۔
مشعال کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل اور مقامی مولوی کی جانب سے لوگوں کو ان کی آخری رسومات اورکچھ دیہاتیوں کو ان کے نمازِ جنازہ میں شرکت سے روکنے کے لیے جاری کیے جانے والے فتوے کے پیشِ نظر اس بارے میں جب مزید جاننے کے لیے اسلام آباد ماڈل کالج کے شعبۂ نفسیات کے سربراہ شاہد اعجاز سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے کہا:’’ نچلی سطح پر تعلیم کی فراہمی کے ذریعے طالب علموں کے رویوں میں تبدیلی لانے کی ازحد ضرورت ہے۔‘‘
قبل ازیں ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) مردان ڈاکٹر میاں سعید نے کہا تھا کہ مردان میں مشتعل ہجوم میں شامل ہونے پر 45افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
تاہم مردان کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس محمد عالم شنواری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقتول طالب علموں پر فیس بک کے ایسے صفحات چلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا ’’ جن پر مبینہ طورپر توہین آمیز مواد شائع کیا جاتا تھا۔‘‘
ٹیلی ویژن فوٹیجز میں دکھایا گیا ہے کہ مشعال کی لاش خون میں لت پت ہے اور لوگ اس کے اردگرد کھڑے ہیں، مشعال کے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں۔ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ان کی لاش پر ٹھڈے مار رہی ہے اور ان میں سے کچھ ان پر لاٹھیاں بھی برسا رہے ہیں۔
ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن 45برس کے علی شاہ نے نیوز لینز سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے اور ان کے ساتھیوں کے لیے مشعال کی ’’قابلِ عزت طریقے سے تدفین‘‘ حقیقتاًپریشان کن تھی۔
شاہد اعجاز نے کہا کہ سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ مشتعل ہجوم نے مشعال کو قتل کیا اور یہ واضح رہے کہ ہجوم کی نفسیات عام لوگوں سے مختلف ہوا کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی فطرت کے دو اہم اجزا ہیں، ایک جذبات اور دوسرا، نظریات۔
انہوں نے مزید کہا:’’ہم ایک سماج کے طورپر جذباتی سطح پر غیرمعمولی طورپر عدم رواداری کا شکار ہوچکے ہیں۔ ‘‘ متذکرہ بالا حالات کے باعث سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماج اپنے ان جذبات پر کس طرح قابو پاسکتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ جارحانہ رویوں کے فروغ کے ذریعے اس نوعیت کے جذبات کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔
شمال مغربی صوبے کے ضلع صوابی کے ایک گرد آلود گاؤں سے تعلق رکھنے والے علی شاہ اور ان کے ساتھیوں نے اس وقت فوری طورپر مشعال کے گاؤں کی جانب رخت سفرِ باندھا جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ مقامی مذہبی رہنماؤں نے لوگوں کو مقتول کی نمازِ جنازہ ادا کرنے یا ان کے اہلخانہ کے ساتھ تعزیت کرنے سے روک دیا ہے۔
مقامی مذہبی رہنماء نے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ ’’توہینِ مذہب کرنے والے کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جاسکتی۔‘‘
قصبے کے ایک اور رہائشی محمد جنید کہتے ہیں کہ علی شاہ اور ان کے ساتھیوں کے اس اقدام کے باعث دیہاتیوں کے اس عزم و حوصلے میں اضافہ ہوا کہ وہ مشعال خان کی نمازِ جنازہ ادا کریں، جس کے باعث سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے مشعال کی موت پر تعزیت کرنے کے لیے ان کے گاؤں کا رُخ کیا جو یہ نعرے لگا رہے تھے:’’ مشعال بے خطاہے اور وہ ایک شہید ہے۔‘‘
علی شاہ نے اگرچہ ایک مشکل اقدام اٹھایا تھا لیکن یہ مشاہدہ کرنا حقیقتاً تکلیف دہ ہے کہ ملکی قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ’اس نوعیت کے حالات‘ میں کیوں کر فوری طورپر حرکت میں نہیں آتے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ بعنوان’’ پاکستان پر توہینِ مذہب کے قوانین کے اثرات‘‘ کے مطابق توہینِ مذہب کے معاملات کی تعداد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس بارے میں ایک جامع معلوماتی جائزہ تشکیل دینا مشکل ہے کیوں کہ اس حوالے سے دستیاب مواد زیادہ نہیں ہے۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں جیساکہ نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس (این سی جے پی) اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 1980ء کی دہائی کے بعد سے ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مثال کے طورپر نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے مطابق مجموعی طورپر633مسلمانوں، 494احمدیوں، 187مسیحیوں اور21ہندوؤں کو 1987ء کے بعد سے مختلف مذہبی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
علی شاہ نے استفسار کیا کہ آیا حکومت، مذہبی مبلغین اور سول سوسائٹی کے کارکن توہینِ مذہب کے متنازع قوانین میں ترامیم کے لیے تحریک چلانے کی جرأت کر سکتے ہیں یا نہیں؟
انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ مشعال خان کے گاؤں کے لوگ گھروں میں قید ہوگئے کیوں کہ مقامی آبادی کے ایک مذہبی رہنما نے پہلے ہی یہ اعلان کر رکھا تھا کہ مشعال خان کے جنازے میں شریک ہونے والے لوگ کافر ہوجائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے مشعال کے بے دردی سے قتل ہونے کی خبر فون پر سنی جس کے بعد وہ فوراً گاؤں سے براہِ راست تدفین کی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے لیے مشعال کے گاؤں روانہ ہوگئے۔
علی شاہ نے کہا:’’ مشعال خان کی باعزت طریقے سے تدفین ہمارے لیے انتہائی مشکل تھی لیکن ہم نے گاؤں میں بدمزگی پیدا ہونے سے گریز کرتے ہوئے یہ خطرہ مول لیا۔‘‘
انہوں نے مشعال کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انفرادی سطح پر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی فرد کو توہینِ مذہب کا مرتکب قرار دے کیوں کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نوعیت کے معاملات کے ساتھ پیش آئے۔
محمد جنید کہتے ہیں کہ علی شاہ کے اس قدام کے باعث مقتول کے جنازے کو کاندھا دینے اور مشعال کے خوف زدہ خاندان کا ڈر کم کرنے کے حوالے سے نیا جوش و جذبہ پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا:’’ہم نے باعزت طریقے سے مشعال کی تدفین کرکے پورا منظرنامہ ہی تبدیل کردیا اور ہمارے اس اقدام کے باعث سیاست دان اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے بھی گاؤں کا رُخ کیا اوراس بہیمانہ قتل کی کھل کر مذمت کی۔‘‘
شاہد اعجاز یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ سماج پر نظریاتی رنگ غالب آچکا ہے۔
علی شاہ نے کہا کہ توہینِ مذہب کا الزام اکثر و بیشتر مخالفین کی جانب سے ذاتی نوعیت کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے عائد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہاتیوں کی اکثریت نے ان سے کہا کہ مقتول نوجوان (مشعال) ایک ذہین طالب علم تھا اور یونیورسٹی کی انتظامیہ مافیا گروپ کے طورپر کام کررہی تھی۔ ‘‘ انہوں نے مشعال کے رشتہ داروں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:’’ توہینِ مذہب کا الزام سراسر غلط ہے۔‘‘
ایک بار پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہجوم مشتعل ہوتا ہی کیوں ہے؟ شاہد اعجاز کا خیال ہے کہ ہجوم اپنے غلط نظریات کے باعث جذباتی سطح پرمشتعل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماج کی فکر کو تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ ایک انفرادی معاملہ نہیں بلکہ پورے سماج کی حرکیات ایک سی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’ گراس روٹ لیول پر تعلیمی تناظر میں تبدیلی لانے یا جذباتی صحت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک کے تعلیمی نظام میں خامیاں موجود ہیں کیوں کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان جذباتی طور پر متوازن نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ المیہ تو یہ ہے کہ طالب علموں کو یہ سکھایا جارہا ہے کہ کس طرح ذہین ہوا جائے لیکن ان کو یہ نہیں پڑھایا جا رہا کہ وہ اپنے جذبات کے ساتھ کس طرح پیش آئیں۔ انہوں نے مشاہدہ کیا:’’’ نوجوانوں کو گھر پہ اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں اس بارے میں کچھ بتایا جارہا ہے کہ جذبات اور جارحانہ رویوں کے ساتھ کس طرح پیش آیا جائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہمیں اپنے نصاب میں جذباتی صحت سے متعلق مضامین شامل کرنے کی شدید ترین ضرورت ہے جس سے ان حادثوں کی پریشان کن تعداد پر قابو پانے میں مدد حاصل ہوگی۔انہوں نے مزید کہا:’’ سکول کی ابتدائی جماعتوں میں ایسا نصاب شامل کرنے کی ضرورت ہے جس میں اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے بارے میں شعور فراہم کیا جائے اورمذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے۔‘‘
علی شاہ نے کہا:’’ یہ دو ریاستوں کا آپسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اظہارِ تعزیت کرنے اور مشعال کو احترام کے ساتھ دفن کرنے کا تعلق انسانیت سے ہے۔‘‘