کراچی:’’مددگار ہیلپ لائن‘‘ کے بانی رُکن ضیاء احمد اعوان کہتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری شہر میں اس وقت پریشانی کی لہردوڑ گئی جب سویرا نامی ایک چھ برس کی بچی ریپ کا نشانہ بن گئی۔

پولیس اور طبی رپورٹوں کے مطابق سویرا کا اغوا کے بعد ریپ کیا گیا، بعدازاں اس کی بدترین طورپر تشدد زدہ لاش شہر کے گندے نالے سے ملی۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘ کی تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران بچوں کو جنسی طورپر ہراساں کئے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ 2015ء کے ابتدائی چھ ماہ کی نسبت 2016ء کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ایسے واقعات کے تناسب میں 36فی صد اضافہ ہوا۔

ضیا ء احمد اعوان کے خیال میں غربت، ناخواندگی، کمزور قانون سازی اور حکام کی جانب سے درست طورپر کارروائی نہ کیا جانا پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ انہوں نے یہ استدلال پیش کیا کہ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات پر قابو پانا اس وقت تک ناممکن ہے تاوقتیکہ ایسے واقعات رونما ہونے کی بنیادی وجوہات کو دور نہیں کر دیاجاتا۔

غیر سرکاری تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘کی محققہ کیتھ سلگٹ نے 2013ء میں تحقیق رپورٹ بعنوان ’’ جنوب اور وسطی ایشیاء کے چارترقی پذیر ملکوں افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان میں جنسی تشدد سے متاثر ہونے والے بچوں و بچیوں کے لیے نفسیاتی و سماجی معاونت کا جائزہ‘‘ مرتب کی۔ اس رپورٹ میں بچوں پر جنسی تشددکے رجحان کے حوالے سے ترقی پذیر ملکوں اور خاص طورپر پاکستان میں تحقیقی کوششوں کے فقدان کی نشاندہی کی گئی۔ اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوا کہ متاثرہونے والے 44فی صد بچے غربت کے باعث جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ چناں چہ اس رپورٹ میں اس حقیقت کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ غربت کو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ایک بڑی اور اہم وجہ کے طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں بچوں پر تشدد ایک پیچیدہ معاملہ ہے جہاں سماج میں جنسی موضوعات کو بڑے پیمانے پر زیربحث نہیں لایا جاتا۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں یہ گنجائش موجود نہیں ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد کے معاملے کو زیرِبحث لایا جائے۔

غیر سرکاری تنظیم ساحل کی حالیہ تحقیق ’پریشان کن اعداد و شمار‘ یہ انکشاف کرتی ہے کہ پاکستان میںروزانہ 10سے زیادہ بچوںکو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مذکورہ غیرسرکاری تنظیم کی سالانہ رپورٹ برائے 2016ء میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک میں جنوری سے جون 2016ء تک بچوں پر جنسی تشدد کے قریباً 2127مقدمات رپورٹ ہوئے۔ ان اعداد و شمار سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ 2016ء میں بچوں پر جنسی تشددکے واقعات میں 2015ء میں جنوری سے جون کے دوران ہونے والے ایسے ہی واقعات کی نسبت 36فی صد اضافہ ہوا۔

ساحل کے میڈیا منیجرممتاز علی گوہر کہتے ہیں کہ جنسی تشدد سے متاثرہ بچے عام طورپر کچی آبادیوںسے تعلق رکھتے ہیں جہاں والدین کے پاس اپنے بچوں کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔انہوں نے مزید کہاکہ ملک میں بچوں پر جنسی تشدد کے رجحان کی بڑی وجہ غربت اور جہالت ہے۔ممتاز علی گوہر نے کہا کہ کچی آبادیوں میں تنہاآوارہ گردی کرنے والے بچے جنسی تشدد کا شکار ہونے کے خطرات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جیسا کہ ہم نے سویرا کے معاملے میں یہ دیکھا ہے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق سویرا کو اس کے گھر کے قریب سے اغوا کیا گیا اور بعدازاں اس کا ریپ کیا گیا۔ اس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے، پولیس کے مطابق ملزموں نے اسے ممکنہ طورپر قتل کرنے کے بعداس کی لاش گندے نالے میں پھینک دی۔

سویرا کے والدین کہتے ہیں کہ ان کو اب صبر آگیا ہے تاہم انہوں نے ملزموں کو گرفتار نہ کیے جانے کے حوالے سے تاسف کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سویرا کے واقعہ نے پورے خاندان اور مقامی آبادی کے رہائشیوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔

وہ ملزموں کی گرفتاری کے حوالے سے بھی کوئی امید نہیں رکھتے۔

آغا خان یونیورسٹی سے منسلک سینئر محققہ ڈاکٹر سمیرا عزیز علی نے 2014ء میں ایک اور محققہ ڈاکٹر سویرا عزیز کے ساتھ مل کر ایک تحقیق کی جس کا عنوان ’’ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی نفسیاتی عارضوں کی ایک اہم وجہ‘‘ تھا۔ان کی تحقیق کے نتائج سے ایک بار پھر یہ واضح ہوا کہ جنسی تشدد سے متاثر ہونے والے بچوں کی بڑی تعداد کچی آبادیوں اور غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے قریباً 80فی صد واقعات رپورٹ نہیں ہوپاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس ساری صورتِ حال کا ایک اور تکلیف دہ پہلو ہے۔

مذکورہ تحقیق اس مسئلے کے حل کے لیے ایک مشترکہ حکمتِ عملی تشکیل دینے کی تجویز دیتی ہے جس کی تیاری میں اساتذہ، والدین اور طبی ماہرین شامل ہوں لیکن پاکستان میں اب تک اس حوالے سے کام کا آغازنہیں ہوا۔ مذکورہ تحقیق میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ حکومت بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ڈاکٹر سمیرا عزیز علی کے مطابق بچوں پر جنسی تشدد ہماری قوم کے مستقبل کے لیے تباہ کن ہے کیوں کہ بچے قوم کے معمار ہوتے ہیں اوروہ اب اس ملک میں غیر محفوظ ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات سے متاثرہ فریق کا خاندان بھی سماجی و معاشی طورپر بدترین طور پہ متاثر ہوتا ہے۔

ساحل کی رپورٹ ’’پریشان کن اعداد و شمار‘‘ کے مطابق گینگ ریپ کے واقعات میں 17فی صد ، ریپ کی کوششوں میں 61اور جنسی تشدد کے واقعات میں 46فی صد تک اضافہ ہوا ہے، 2015ء کے ابتدائی چھ ماہ کی نسبت تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ریپ کے واقعات میں 20فی صد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس نوعیت کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ہوئے، اس فہرست میں سندھ کا نمبر

دوسرا ہے جہاں یہ تناسب 24فی صد ہے۔ سندھ اور خیبرپختونخوا میں 2015ء میں جنوری سے جون تک ہونے والے واقعات کے تناسب میں تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق بالترتیب 77اور 66فی صد اضافہ ہوا ہے۔ تمام فریق یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں سالانہ بنیادوں پر اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ ذمہ داروں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جارہی اور نہ ہی بچوں پر جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے کوئی پالیسی تشکیل دی گئی ہے۔

ساحل کی ایک اور رپورٹ ’’پانچ سالہ جائزہ برائے 2007ء سے 2011ء تک‘‘ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کا رجحان موجود رہا ہے۔ان ’’پانچ برسوں کے تجزیے کے اعدادو شمار‘‘ کے مطابق 2007ء میں بچوں پر جنسی تشدد کے 2331واقعات ہوئے ، اضافے کا یہ رجحان 2008ء کو چھوڑ کر2011ء تک جاری رہا۔

اعداد وشمار کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ 2009ء میں بچوں پر تشدد کے واقعات میں 9.4فی صد اضافہ ہوا اور 2010ء میں ایسے واقعات کی تعداد 10فی صد تک بڑھی۔ 2012ء میں پاکستان میں 2011ء کی نسبت ایسے واقعات کی تعداد میں 17فی صد اضافہ ہوا۔

ضیاء احمد اعوان کہتے ہیں کہ پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس نوعیت کے اقدامات کرے اور اس حوالے سے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرے، وگرنہ بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ قبل ازیں یہ جرم بڑے پیمانے پر رپورٹ نہیں ہوپاتا تھا لیکن 2016ء میں حالات نے مثبت رُخ اختیار کیا۔ پاکستان بھر سے 897خواتین اور بچوں نے تنظیم سے مدد حاصل کرنے کے لیے رابطہ قائم کیا۔

انہوں نے کہا کہ تشدد کے صرف 10فی صد واقعات ہی سندھ اور پنجاب کے میڈیا میں رپورٹ ہورہے ہیں جب کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا نخوا میں رپورٹ ہونے والے واقعات کا تناسب اس سے کہیں کم ہے۔
ضیاء احمد اعوان کہتے ہیں:’’ پاکستان میں تشدد کے مختلف مظاہر کے فروغ پانے کی وجہ سماجی انصاف کے نظام کی ٹوٹ پھوٹ ہے۔‘‘ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ بچوں پر جنسی تشدد کے ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں۔

بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات پر اس کی بنیادی وجوہات کو دور کئے بنا قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ سندھ کے وزیربرائے پارلیمانی امور و صحت ڈاکٹر سکندر علی مندھرو کہتے ہیں کہ حکومتِ سندھ بچوں سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے آگاہ ہے جن میں بچوں پر جنسی تشدد بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ اسمبلی نے اس معاملے پر قابو پانے کے لیے قانون سازی مکمل کرلی ہے لیکن اس حوالے سے فی الحال مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here