پشاور:افغان مہاجرین کی پاکستان سے واپسی اور ملک بدری نے نہ صرف ان کو اپنی قیمتی جائیدادوں اور کاروبار فروخت کرنے بلکہ پاکستانی قومیت کی حامل اپنی بیویوںکو چھوڑنے پر بھی مجبور کردیا ہے۔

افغان مردوں سے شادیاں کرنے والی پاکستانی خواتین مشکل حالات سے دوچار ہیں جیسا کہ وہ نئے ملک منتقل ہوکراپنے خاندانوں کو صوبہ خیبرپختونخوا اور پاکستان افغانستان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتیں۔

40برس کی بانو گل نے نیو زلینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میرا خاندان یہاں ہے اور میں کبھی افغانستان نہیں گئی۔ افغانستان میں میرے خاوند کے کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ ہم اگر وہاں جاتے ہیں تو ہم کس طرح رہیں گے؟‘‘

بانو گل کا تعلق کولادھر، چارسدہ کے غریب خاندان سے ہے۔ ان کی ایک افغان شہری سے شادی ہوئی جو35برس قبل ضلع چارسدہ میں آباد ہوا تھا جب 1980ء کی دہائی میںافغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد مہاجرین کی پہلی کھیپ پاکستان آئی تھی۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

بانو گل نے کہا:’’میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب میرے خاوند افغانستان جانے کے لیئے یہ گھر چھوڑنا چاہیں گے۔‘‘ان کے بچے ایک مقامی سرکاری سکول میں زیرِتعلیم ہیں اور ان کے خاوند چارسدہ بازار میں جوتوں کی دکان چلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ہم یہاں بڑی خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین(یو این ایچ سی آر) کے مطابق 15لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان مہاجرین کی عالمی آبادی کے 10.5فی صد حصے کی میزبانی کررہا ہے جو یو این ایچ سی آر کے دائرۂ اختیار میں دنیامیںسب سے زیادہ طویل عرصہ سے مہاجرین ہیں۔

یو این ایچ سی آر کہتا ہے کہ افغان مہاجرین کا تعلق بنیادی طورپر مشرقی سرحد سے متصل صوبوں سے ہے، پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی اکثریت پشتون(85فی صد)ہے جن میں دیگر لسانی گروہوں جیسا کہ ترکمان، ازبکوں، تاجکوںاو رہزارہ کی تھوڑی تعداد بھی شامل ہے۔

محکمۂ داخلہ و قبائلی امور، خیبرپختونخوا کے مطابق خیبرپختونخوا وفاٹا میں 10لاکھ مہاجرین رجسٹریشن کے بغیر رہ رہے ہیں۔ محکمہ کے ایک افسر نے، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کیوں کہ ان کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے، کہا کہ افغان مہاجرین کی عمومی طورپر پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخو امیں موجودگی نے ان کی مہاجرکی حیثیت کو تبدیل کردیا ہے کیوں کہ ان کے مقامی لوگوں کے ساتھ خاندانی تعلقات قائم ہوگئے ہیں۔

مذکورہ افسر نے کہا:’’ پاکستانیوں اور افغانوں، خاص طورپر پشتونوں، جو سرحد کے دونوں جانب آباد ہیں، میں شادی کی شرح بہت زیادہ ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایسی شادیوں کے معاملات کی اکثریت خیبرپختونخوا کے شہروں مردان، چارسدہ، پشاور، نوشہرہ، صوابی، اپر و لوئر دیر و وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے کچھ حصوں میں رپورٹ ہوئی ہے۔

ماضی میں وفاقی حکومتیں رجسٹرڈ افغانوں کے قانونی قیام کی تاریخ میںمتعدد بار اضافہ کرچکی ہیں۔ تاہم جون 2016ء میں وفاقی حکومت نے مزید توسیع کی نیت کے بغیررجسٹرڈ افغان مہاجرین کا قیام 2016ء کے اختتام تک بڑھایا۔

محکمۂ داخلہ و قبائلی امور کے مذکورہ افسر نے کہا کہ پاکستانی شہریت کے ایکٹ 1951ء کے مطابق افغان مہاجرین ، حتیٰ کہ پاکستان میں پیدا ہونے والوں کو بھی افغان شہریت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ افغان شہریوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین ویزے کی باضابطہ کارروائی کے بعد افغانستان جاسکتی ہیں۔ ’’اگر ان کے خاوند پاکستان رہنا چاہتے ہیں، وہ ویزا لے کر یہاں آسکتے ہیں اور غیر ملکیوں کے لیے موجود قوانین کے تحت رہ سکتے ہیں۔‘‘

نزاکت بی بی، جن کی شادی ایک افغان شہری رضا ہارون اصامی سے ہوئی ہے، کہتی ہیں کہ ان کے خاوند پاکستان میں پیدا ہوئے جب ان کے خاندان نے 30برس قبل پشاور میں پناہ حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ ان کے خاوند اور ان کے خاندان کے ارکان کا یہاں کاروبار اور جائیدادیں ہے۔

نزاکت بی بی کے تین بیٹے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر نہیں جانا چاہتیں۔ انہوں نے کہا:’’ میں نے جب افغانستان جانے کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لیاتو میرے خاوند نے کہا کہ وہ میرے بیٹوں کے چلے جائیں گے اور اگر میں چاہتی ہوں تو اکیلی رہ سکتی ہوں۔ میں اپنے بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتی چنانچہ مجھے افغانستان جانا ہے۔‘‘

رواں برس اگست کے اوائل میں وفاقی وزیرِداخلہ چودھری نثار نے کہا تھا کہ افغان مرد کے پاکستانی عورت سے شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کے ساتھ پاکستانی کی بجائے افغان شہری کے طورپر پیش آیا جائے گا۔
قانونی ماہر اور پشاور ہائیکورٹ کی سینئر وکیل آمنہ رفیق نے کہا کہ محکمۂ داخلہ کے افغان مینجمنٹ اینڈ ریپیٹری ایشن سٹریٹیجی(Afghan Management and Repatriation Strategy)سیل کی جانب سے تشکیل دی گئی یواین ایچ سی آر کی سولوشنز سٹریٹیجی برائے افغان ریفیوجیز(Solutions Strategy for Afghan Refugess)کے مطابق پاکستانی خواتین سے شادی کرنے والے افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے بہت سے معاملا ت ہیں کہ پاکستانی خواتین اپنے افغان شوہروں کے ساتھ افغانستان نہیں جانا چاہتیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here