ڈیرہ اسماعیل خان: حکام اور قبائلیوں نے کہاہے کہ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں طویل عسکری کارروائیوں کے باعث عسکریت پسندوں کے انخلا کے بعد لڑکیوں نے طالبان کے سابق مراکز میں سکول جانا شروع کردیا ہے۔
حتیٰ کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے سابق سربراہ مرحوم حکیم اللہ محسود کے آبائی گائوں نے بھی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کے سکول کا رُخ کرنے کا مشاہدہ کیا ہے۔ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے ایجوکیشن آفیسر خلیل داوڑ کے مطابق کوٹ کائی میں واقع پرائمری سکول میں اب تین سو سے زائد طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’حکومت کو نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی واپسی کے بعد داخلوں میں اضافے کے پیشِ نظر مڈل سکول کو ہائی سکول کے طورپر اَپ گریڈ کرنا پڑا۔‘‘
پانچویں جماعت کی طالبہ گل ناز، جو اپنا پورانام استعمال نہیں کرنا چاہتیں، ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ حکومت کو بلامعاوضہ تعلیم فراہم کرنی چاہئے۔‘‘
2009ء میں پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن راہِ نجات شروع کیا، یہ پاکستانی طالبان کی جنم بھومی ہے، جن کی ظالمانہ کارروائیوں کے باعث ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
فاٹا ریسرچ سنٹر کی رپورٹ کے مطابق وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں(فاٹا)، جو سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل ہے، میں تعلیم پر ہونے والے سالانہ اخراجات، 2004ء اور 2005ء میں 2001ء کی سطح سے دگنا کرکے 2.7ارب کردیے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی طالبان سکولوں، خاص طورپر خواتین کی تعلیم پر، نام نہاد مذہبی تناظر میں شدید تنقید کرتے تھے۔
خلیل داوڑ نے کہا:’’دو برس قبل جنوبی وزیرستان میں خاندانوں کی واپسی کے بعد ہم نے 23ہزار بچوں کو داخلہ دینے کا ہدف مقرر کیا۔ خوش قسمتی سے اب تک ہم 18ہزار طلبا و طالبات کو داخلہ دے چکے ہیں۔‘‘
آل ٹرائبل ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر خان ملک نے کہا کہ وہ لڑکیوں کے ردِعمل پر حیرت زدہ ہیں۔
انہوں نے نیوز لینز پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا:’’یقین کیجئے ، میں لڑکیوں کی تعلیم میں یہ اضافہ دیکھ کر بہ ظاہر سکتے میں آگیا تھا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا:’’محکمۂ تعلیم نے فوج، سیاسی انتظامیہ اور مقامی قبائلیوں کے تعاون سے عسکریت پسندی سے متاثرہ اس خطے کے تمام بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی کوششوں کو تیز کردیا ہے۔‘‘
قبائلی بزرگ محمد اعظم نے کہا:’’ہم نے سات طویل برس غریب الوطنی میں گزارے ہیں لیکن حکومت اور نہ ہی کسی عالمی ادارے جیسا کہ یونیسیف نے ہمارے بچوں کی تعلیم کے بارے میں معلوم کرنے کی زحمت کی۔‘‘
فاٹا ریسرچ سنٹر کہتا ہے کہ خطے میں شرحٔ خواندگی 17.42فی صد ہے جو وفاق اور صوبائی سطح پر مجموعی طورپر 59.6فی صد ہے۔
فاٹا ریسرچ سنٹر کے مطابق فاٹا میں مجموعی طورپر 674,567تعلیمی ادارے اور 22,404اساتذہ ہیں۔
خلیل داوڑ نے کہا کہ ان کے محکمے نے 23ہزار پرائمری طالب علموں کو داخلہ دینے کے لیے دو مراحل پر مشتمل تیز رفتار مہم شروع کی ہے۔
محکمۂ تعلیم سکول جانے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کی غرض سے تمام طالب علموں میں بلامعاوضہ سکول بیگ، کتابیں اور سٹیشنری تقسیم کرچکا ہے۔
محکمۂ تعلیم عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باعث سکولوں کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت کرنے کا منصوبہ بھی رکھتا ہے۔
ملک شاہ جان نے کہا کہ بہت سے سکولوں میں فرنیچر اور بیرونی دیوار نہیں ہے۔
فاٹا ریسرچ سنٹرنے کہا ہے کہ تباہ ہونے والے 458تعلیمی اداروں (پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سکینڈری سکول و کالجز) میں سے عسکریت پسندوں نے لڑکیوں کے 141سکول تباہ کیے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ 343تعلیمی ادارے مکمل طورپر، 79جزوی طورپر تباہ ہوئے جب کہ 36کو نقصان پہنچا۔ صرف جنوبی وزیرستان میں 27مکمل اور آٹھ جزوی طورپر تباہ ہونے والے سکول رجسٹرڈ کیے گئے۔
محمد اعظم نے کہا کہ جیسا کہ خاندانوں کی واپسی کا عمل جاری ہے، والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کی جانب زیادہ متوجہ ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا:’’ہم اب قائل ہوچکے ہیں کہ عہدِ حاضر میں اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔‘‘
قبائلی بزرگ نے مزید کہا:’’حکومت کو تمام بچوں کویونیفارم، کتابوں اورسٹیشنری کی بلامعاوضہ فراہمی یقینی بنانے کے لیے کوششوں کو تیز کرنا چاہئے جس سے ایک دہائی کے اندر اندر مجموعی صورتِ حال پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘